کل رات میرے ایک دوست نے مجھے ویڈیو بھجوائی‘پہلی ویڈیو میں ایک کم زور‘ نحیف بزرگ دو پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس والوں سے الجھ رہا تھا‘ اس کے ساتھ درمیانی عمر کی ایک خاتون تھی جب کہ سامنے پچاس اکاون سال کا ایک شخص کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس اہلکاروں کو کہہ رہا تھا آپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے‘ آپ اس کا سامان کیوں نہیں نکالتے؟ بزرگ پولیس والوں سے تکرار کر رہا ہے اور خاتون کہہ رہی تھی آپ مجھے آرڈر دکھائیں‘ اے ایس آئی انھیں یقین دلا رہا تھا میرے پاس کورٹ آرڈر ہے‘ آپ اب گھر کے اس پورشن میں نہیں رہ سکتے‘ بزرگ پولیس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا.
پولیس اہلکار انھیں سمجھارہے تھے بریگیڈیئر صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ ہمارے محترم ہیں‘ آپ ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں‘ ہمارے پاس آرڈر ہے اور ہم نے ہر صورت اسے پورا کرنا ہے‘ یہ تکرار بڑھ جاتی ہے اور آخر میں اے ایس آئی کانسٹیبل کو کہتا ہے گاڑی منگواؤ اور ان تینوں کو اٹھا کر تھانے لے جاؤ اور ویڈیو ختم ہو جاتی ہے‘ دوسری ویڈیو میں پچاس اکاون برس کا شخص پولیس والوں کو کہتا ہے آپ ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ پولیس اہلکار جواب دیتا ہے‘ یہ بزرگ بھی ہیں اور بیمار بھی‘ ہم انھیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ آپ اپنا سامان لے آئیں اور وہ شخص سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا جاتا ہے۔
یہ بوڑھا اور بیمار شخص بریگیڈیئر امتیاز احمد عرف بریگیڈیئر بلا تھا‘ ایک زمانہ تھا پورے ملک میں بریگیڈیئر امتیاز کا طوطی بولتا تھا‘یہ حکومتیں بھی تبدیل کیا کرتا تھا اور جس کو دل چاہتا تھا اسے اٹھا کر ننگا کر دیتا تھا‘ اس نے کمیونسٹ لیڈر نذیر عباسی تک کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ‘ اس کی شروعات پاک فوج کی انجینئرنگ کور سے ہوئی‘ قدرت نے اسے مکار نیلی آنکھیں دی تھیں لہٰذا ساتھی اسے بلا اور باگڑ بلا کہتے تھے‘ یہ انجینئرنگ کور سے انٹیلی جنس میں آیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ 1980 کی دہائی میں یہ انٹرنل سیکیورٹی کا سربراہ بن گیا اور میاں نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا اور پھر ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا‘ 1989 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی‘ بریگیڈیئر امتیاز نے حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا‘یہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس نے راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے ایم این ایز توڑنے کی کوششیں شروع کر دیں‘ مسعود خان اس وقت آئی بی کے ڈی جی تھے‘ انھیں بھنک پڑ گئی اور انھوں نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کی پی پی کے دو ایم این ایز کے ساتھ آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کر لیں‘ وزیراعظم کے ہاتھ میں ثبوت آ گیا لہٰذا اس نے آرمی چیف اسلم بیگ کو بلا کر پوچھ لیا‘ اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو (المعروف جنرل کلو)مکر گئے اور ملبہ جنرل امتیاز پر آ گرا‘ اس نے میجر عامر کو بھی ساتھ لپیٹ لیا جب کہ میجر عامر اس سازش میں شامل نہیں تھے‘ یہ اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر تھے مگر ڈی جی نے انھیں اس معاملے سے الگ کر رکھا تھا‘ یہ سارا آپریشن بریگیڈیئر امتیاز ایڈیشنل ڈی جی انٹرنل ونگ کی حیثیت سے دیکھ رہا تھا‘ یہ آپریشن تاریخ میں مڈنائیٹ جیکال کے نام سے مشہور ہوا۔
بہرحال قصہ مختصر جنرل اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کا کورٹ ماشل کر کے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا‘ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ انھوں نے بریگیڈیئر امتیاز کو برخاستگی کے باوجود پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری لگا دیا‘ یہ 1990 میں الیکشن جیت کر پہلی بار وزیراعظم بنے تو انھوں نے بریگیڈیئر بلا کو ڈی جی آئی بی بھی لگا دیا اور یہاں سے بریگیڈیئر بلا کو ایک بار پھر عروج ملا‘ یہ 1993 تک ڈی جی آئی بی رہا‘ میں ان دنوں تازہ تازہ اسلام آباد آیا تھا‘ میں نے اپنی آنکھوں سے اس شخص کا کروفر اور جلال دیکھا ‘ بڑے بڑے نامی گرامی وزراء اس کے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے تھے‘ اقتدار اور طاقت کی گنگا اس کی میز کے نیچے بہتی تھی اور یہ خود بھی اس میں غسل کرتا تھا اور اپنے دوست احباب کو بھی ڈبکیاں لگواتا تھا‘ بہرحال قصہ مزید مختصر 1994میں بے نظیر بھٹو دوبارہ آ گئیں اور بریگیڈیئر ایک بار پھر پھنس گیا‘ 2001 میں جنرل مشرف نے نیب بنایا‘ بریگیڈیئر بلا بھی اس کی زد میں آگیا۔
اس زمانے میں اسلام آباد میں اس کی 24 پراپرٹیز دریافت ہوئیں‘ زمینیں‘ زیورات‘ بینک اکاؤنٹس اور بے نامی جائیدادیں ان کے علاوہ تھیں‘ نیب نے عدالت میں کرپشن ثابت کر دی اور یوں اسے 8 سال قید ہو گئی‘ یہ 2008 میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوااور 2010میں اسے ایک بار پھر چیئرمین او جی ڈی سی عدنان خواجہ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا مگر یہ اس وقت تک کینسر کا مریض بن چکا تھا‘ اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لہٰذا عدالت نے اسے رہا کر دیا اور یہ اس کے بعد گوشہ گم نامی میں چلا گیا‘ میں بھی اسے بھول گیا لیکن پھر اچانک اتوار کی رات اس کی ویڈیو سامنے آئی اور میں قسمت کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
بریگیڈیئر امتیاز کی تازہ ترین کہانی یہ ہے‘ یہ اپنی جس اولاد کے لیے لوٹ کھسوٹ کرتا رہا‘ اس نے جن بچوں کے لیے کراچی کے ’’کلین اپ‘‘ آپریشن میں حرام کا مال اکٹھا کیا تھا‘ وہ اس کے بڑھاپے میں اس کی جان کے دشمن ہو گئے‘ بڑے بیٹے نے چپکے سے اس کی ساری پراپرٹی اونے پونے بیچی اور رقم لے کر باہر بھاگ گیا‘ یہ دوسرے بیٹے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو گیا‘ دوسرا بیٹا پہلے بیٹے سے زیادہ ظالم تھا‘ اس کی زیادتیاں اس کی ماں برداشت نہ کر سکی اور وہ بے چاری انتقال کر گئی‘ امتیاز بلا بیوی کی وفات کے بعد اکیلا ہو گیا‘ بیٹے نے اسے گھر میں قید کر دیا‘ یہ ڈیڑھ سال گھر میں قید رہا‘ بیٹی کو پتا چلا تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ باہر سے واپس آئی اور والد کو بھائی کی قید سے نجات دلائی۔
یہ گھر امتیاز بلا کا تھا لیکن اس نے اسے بیٹے کے نام کر دیا تھا اور یہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی چناں چہ معاملہ عدالت اور پولیس تک پہنچ گیا یہاں تک کہ بیٹا باپ کے خلاف عدالت کا حکم لے آیا‘ پولیس آئی اور اس نے بریگیڈیئر امتیاز اور اس کی بیٹی کو گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا‘ بریگیڈیئر امتیاز پولیس کے ساتھ تکرار کر رہا تھا جب کہ بیٹا سامنے کھڑا ہو کر پولیس کو اسے گرفتار کرنے اور گھر سے نکالنے کا حکم دے رہا تھا اور گھر کے ملازم حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے‘ بیٹی پولیس کو عدالت کا دوسرا آرڈر دکھا رہی تھی جس کے مطابق بریگیڈیئر امتیاز کو گھر سے نہیں نکالا جا سکتا تھا لیکن پولیس یہ آرڈر تسلیم نہیں کر رہی تھی‘ میں نے یہ مناظر دیکھے اور کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ سے معافی مانگتا رہا۔
بریگیڈیئر امتیازاپنے دور کا فرعون تھا‘ یہ اپنے زمانے میں ہر شریف شخص کو دفتر بلا کر ذلیل کرتا تھا‘ اس نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ دیے‘ کتنے لوگوں کے گھروں اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا‘ اس کے دور میں کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ شروع ہوا تھا‘ اس آپریشن کی آڑ میں بھی لاتعداد لوگوں کو غائب اور ٹارچر کیا گیا‘ ان میں درجنوں بے گناہ اور معصوم لوگ تھے‘ ان کا واحد جرم مہاجرہونا تھا‘اس زمانے میں ہر مہاجر کو الطاف حسین کا ساتھی سمجھا جاتا تھا‘کراچی کے آپریشن کے دوران ٹھیک ٹھاک کرپشن ہوئی‘ بریگیڈیئر امتیاز اور اس کے ساتھیوں نے دونوں ہاتھوں سے جی بھر کر لوٹا لیکن پھر اس ساری مارا ماری کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ خود 8 سال جیل میں پڑا رہا اور اس کے مال پر اس کے وہ بچے پلتے رہے جنھوں نے جیل کے بعد والد کو ’’اون‘‘کرنے سے انکار کر دیا‘ جنھوں نے اسے ڈیڑھ سال گھر میں قید رکھا اور آخر میں اس کی واحد چھت بھی اس سے چھیننے کی کوشش شروع کر دی۔
یہ جس بیٹے کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت جمع کرتا رہا وہ آخر میں اسے دھکے دے کر گھر سے نکالنے کے لیے پولیس لے آیا اور پولیس اس شخص کے ساتھ اس کے گھر میں کھڑے ہو کر بدتمیزی کرنے لگی جس کے ایک اشارے پر آئی جی تبدیل ہو جایا کرتے تھے‘ آخر پھر اس سارے کھیل کا کیا فائدہ ہوا؟ اس ساری مارا ماری کا کیا نتیجہ نکلا؟ جیل‘ ذلالت‘ بیماری اور اولاد کے ہاتھوں ذلت‘ کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا‘ آپ جو بوتے ہیں آپ کو وہ آخر میں کاٹنا بھی پڑتا ہے‘ میں اسے تھوڑا سا تبدیل کر کے کہتا ہوں‘ ہم انسان جو بوتے ہیں ہمیں اس کا ہزار گنا کاٹنا پڑتا ہے کیوں کہ ہر ایک بیج دس دس اسٹے پیدا کرتا ہے اور ہر اسٹے سے سیکڑوں بیج نکلتے ہیں۔
ہم اگر ایک بیج بو کر ایک بیج کاٹ لیں توشاید زیادہ تکلیف نہ ہو مگر برائی اور عبرت کے ہر بیج سے سیکڑوں اسٹے اور ہزاروں لاکھوں بیج پیدا ہوتے ہیں اور یہ بیج اور یہ اسٹے انسان کو سکون سے مرنے بھی نہیں دیتے‘ ہم انسانوں کو ہر وقت اللہ سے ڈرنا چاہیے اور ساتھ اس سے دعا کرنی چاہیے یا پروردگار آپ ہم سے سب کچھ لے لو لیکن ہمیں اولاد اچھی عنایت کر دو کیوں کہ یہی وہ اثاثہ ہے جو آخر تک انسان کے ساتھ چلتا ہے اگر اولاد نالائق اور ظالم نکل آئے تو پھر انسان روز مرتا اور روز دفن ہوتا ہے پھر زندگی جہنم سے بدتر ہو جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ بریگیڈیئر امتیاز کا سفر بھی آسان بنائے‘ انسان کے لیے بیٹے کو پولیس کے ساتھ کھڑا دیکھنا آسان کام نہیں ہوتا اورانسان کو یہ منظر بھی اس وقت دیکھنا پڑے جب بیٹا باپ کو گھر سے باہر پھینکنے کے لیے پولیس لے کر آیا ہو‘ اللہ سب کو معاف کرے‘ سب کو اپنی امان میں رکھے۔