مارک روٹے ! تجھے اللہ پوچھے،تو کیوں ہمیں اپنے سیاسی قائدین سے نفرت دلانے پر تلا بیٹھا ہے؟ ارے تو تو ہالینڈ جیسی تگڑی معیشت والے ملک کا وزیراعظم تھا،پہلے تو تجھے خود سے اقتدار سے رخصت ہی نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھتا، لیکن تو ایسا نہیں کوئی بات نہیں، انسان ہے اگر تیرے دل میں چودہ برس تک اقتدار میں رہنے سے اقتداری اکتاہٹ کا عارضہ لاحق ہو گیاہوگا۔اگر ایسا تھا تو پھر اقتدار کے سنگھاسن پر اپنی اولاد کو بٹھا دیتا۔ارے "بے وقوفو” اگر تم یہ گر نہیں جانتے تو آؤ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں سے سبق سیکھو کہ 14۔ برس اقتدار میں رہنے کے بعد تو اقتدار بھی گویا ابا کی چھوڑی میراث بن جاتا ہے۔روٹے میاں ! اب اتنا تو تم بھی جانتے ہوگے کہ میراث کوئی کسی کے حوالے نہیں کرتا۔تم نے پاکستان کے ان اقتداری نسخوں سے کوئی سبق ہی نہیں لیا اوراقتدار جیسی ہاتھ لگی لکشمی کو چھوڑ دیا،کسی سیاسی جانشین کو بھی تخت پر نہ بٹھایا، اور گھرچل دئے۔شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ تمہاری اولاد یا خاندان میں کوئی اتنا قابل ہی نہ ہو کہ وہ اقتدار چلا سکتا یا سکتی ہو۔ ہمارے یہاں تو الحمدللہ حاکموں کے بچے پیدائشی "جینیس” ہوتے ہیں۔جینیس بھی ایسے کہ جس عمر میں تمہارے ملک کے نوجوان یا عام پاکستانی نوجوان ابھی کپڑے پہننے کا ڈھنگ سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ان کے بچے دولت بنانے کی فیکٹریاں بن چکے ہوتے ہیں۔ مارک روٹے ہمارے حاکموں کے ان بچوں کو ہلکا مت لینا، یہ "مصلحت آمیزی”میں ید طولی رکھتے ہیں۔ان کی اس قابلیت پر دیوان کے دیوان لکھے جاسکتے ہیں، لیکن یہاں ان کی عوام کو بغیر کسی خرچے کے نہال کرنے کی خدمت کی مثال پیش کی جا رہی ہے۔ایک ہونہار نے بھرے پرے جلسے میں عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر 300۔ اور دوسرے نے 200۔ بجلی یونٹ مفت دے کر خوش کردیا جبکہ دونوں نے یہ کام ایک پائی خرچ کئے بغیر کرڈالا۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تمہارے پاس ایسے "باصلاحیت” جانشین نہیں ،جو پاکستان کو دستیاب ہیں، اب ظاہر ہے پھر تم نے روٹے گھر ہی جانا تھا۔مگرروٹے میاں! تم نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ ارے تم نے پہلے دو آپشنز پر لات ماردی،چلو ہم اسے تمہارے دماغ کا خلل قرار دے کر صرف نظر بھی کرلیں تو کم ازکم اتنا ہی کرلیتے کہ کوچہ اقتدار سے ایسی آن ،بان اور شان سے کوچ کرتے کہ دنیا تمہاری شان کے گن گاتی۔ تمہارے آگے پیچھے کم از کم پچاس گاڑیوں کے پروٹوکول کا قافلہ ہوتا۔ ہر گاڑی کی چھت پر ایسا بھونپو نہ صرف نصب ہوتا بلکہ چلا رہا ہوتا کہ 14۔ سال اقتدار میں رہنے والا ہالینڈ کا حاکم جا رہاہے۔ پروٹوکول کی گاڑیوں کا یہ قافلہ فراٹے بھرتا ہوا یوں دکھائی دیتا کہ جیسے ابھی سڑک کا سینہ چیر دے گا، اور نہیں تو یار اتنا تو ضروری تھا کہ ہماری روایات کے مطابق دو چار انسانوں کو ہی تمہاری گاڑیاں کچل ڈالتیں ، تو بھی واپسی کا یہ سفر یادگار بن جاتا۔ان متوفین کے ورثاء تم سے رحم کی بھیک مانگتے کہ حضور معافی دے دیں، ہمارے متوفی کا ہی قصور تھا کہ وہ جناب کی بد مست گاڑیوں کے سامنے آگئے تھے،اس کا کچلا جانا بنتا تھا ،بس آپ ہمیں معاف کردیں۔روٹے تم کیا جانو کہ اس قسم کے ورثاء کو معافی دینے سے کیسا فاتحانہ احساس ملتاہے۔ یہ فاتحانہ احساس اس وقت مزید دوآتشہ ہو جاتا ہے کہ جب حکمران قومی خزانے سے مرنے والے کے ورثاء کو کچھ رقم بھی عنایت کر دیتا ہے،اور اپنے ڈرائیور کو ایک گندی سی گالی "پریمی” انداز سے دے کر کہتا ہے "اوئے فیر تیھان( دھیان ) کریں”۔ بے وقوف روٹے تم نے اگر اقتدار سے واپسی کے وقت پروٹوکول کی گاڑیوں کے جھرمٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہوتا تو جب یہ سرکاری قافلہ تمہارے محل میں داخل ہوتا تو ہمارے پی ٹی وی جیسے کیمرے تمہارا ذاتی محل بھی دکھاتے۔عوام کو بھی پتہ چلتا کہ تمہارا ذاتی محل بھی کسی شہنشاہ کے محل سے کم نہیں ۔مملکت خداداد پاکستان میں تو ایسے محل کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ،بلکہ حکمرانی کا حق تو یہ ہے کہ 14۔سالہ اقتدار کے بعد یہ تمہارا حق بنتا تھا کہ تمہارا محل کم از کم 14۔ ایکڑ پر تو محیط ہوتا۔پھر عوام کے پیسوں پر چلنے والا میڈیا قصے سناتا کہ جانے والے حاکم کی یہ رہائش گاہ ہے۔ مارک روٹے تم نے تو ان سارے لوازمات کو ہی ٹھکرا ڈالا، تمہیں اللہ سمجھے کہ تم ہالینڈ کے 14۔برس وزیراعظم رہ کر اس "بھونڈے” انداز سے سبکدوش ہوئے کہ سائیکل پر بیٹھے اور گھر روانہ ہوگئے۔سائیکل جیسی سواری کا انتخاب کرکے تم نے پاکستان جیسے ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کی ناک کٹوادی۔مارک روٹے تم نے سائیکل پر ہی جانا تھا تونئے وزیراعظم سے کہہ کر پاکستان کی طرح سڑکوں کو عام ٹریفک کیلئے بند ہی کرالیتے۔یوں چلو سائیکل پر ہی سہی کچھ عزت تو رہ جاتی اور گھر تک کی سائیکل سواری میں فاتحانہ یا فاخرانہ "ٹچ” بھی آجاتا۔ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ تم کس علاقے میں رہتے ہو؟ ابھی تم جس طرح بے یارو مددگار سائیکل پر پیر پلٹا کر سوار ہوئے اور چلتی ٹریفک میں غائب ہوگئے تو اس سے کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ تمہارا گھر کیسا ہے؟ وہ ایکڑوں میں ہے ،کنالوں یا کتنے مرلوں میں ؟ تمہاری سائیکل تو کسی بھی چھوٹے سے دروازے میں گھس گئی ہوگی۔ مارک روٹے تم 14۔سالہ اقتدار چھوڑ کر سائیکل پر گھر آئے ہو اور اب یکم اکتوبر سے تم نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالو گے،کیونکہ نیٹو کے موجودہ سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ کی 10 سالہ مدت ختم ہو جائے گی۔ مارک روٹےتمہارے "لچھن” دیکھ کر لگتا ہے تمہاری ان” بے وقوفیوں ” کا تسلسل نیٹو والے عہدے میں بھی جاری رہے گا۔تم اگر پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی تھوڑی سی بھی شاگردی کرلو تو یقین ہے تم نیٹو کے دفتر میں اپنے ہالینڈ کے عزیزوں کو بھرتی کرالوگے، لیکن تم ایسا نہیں کروگے۔ کیونکہ تم ہماری طرح کے مسلمان نہیں ہو بلکہ تم وہ غیر مسلم ہو جس کے بارے میں عطاء الحق قاسمی نے کیا خوب تشبیہ دی ہے کہ یورپ میں انہوں نے ایسے غیر مسلم دیکھے جو اسلامی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں۔ مارک روٹے پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھوں ابتلاء کا دور سسک سسک کر ظلم سہنے والی عوام تمہیں سلام پیش کرتی ہے۔تمہاری عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہے کہ تم نے وزیراعظم ہاؤس کو الوداع کہا اور اپنی سائیکل پر سوار ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے توسڑک کے کنارے کھڑے ڈچ عوام نے تالیاں بجابجا ایک دیانتدار حاکم کو خراج تحسین پیش کیا۔ مارک روٹے تم گریٹ ہو ۔کاش پاکستان کو بھی کوئی مارک روٹے مل جائے جو عمل کا مسلمان اور انسانیت کا ترجمان ہو۔ملکی عوام اسے کندھوں پر بٹھا کر اس یقین کے ساتھ اقتدار میں لائیں کہ وہ ملک اور قوم کا معاون ومحافظ بنے گا۔