بچپن کی بات ہے کہ جب ہم لیاقت آباد آٹھ نمبر میں مقیم اپنے ماموں کے گھر آتے وہ صبح سویرے ایک چھوٹی سی بالٹی نما ڈولچی لے کر جاتے اور بھورے خان کی گرما گرم نہاری اور گرما گرم تندوری روٹیاں لے کر آتے۔ اس نہاری کی خوشبو اور ذائقہ کیا ہی لذیذ ہوتا تھا۔ آجکل کی مہنگی سے مہنگی نہاری میں وہ اصلی روایتی ذائقہ نہاری کا موجود ہی نہیں ہوتا۔ اُس زمانے میں نہاری گھر پر بنانے کا کوئ تصور ہی نہ تھا۔ نہاری کا مطلب بھٹیارے کی نہاری بازار سے لاؤ اور کھاؤ۔ دوسری اہم بات یہ کہ صرف کسی ایک ہوٹل یا ریسٹورنٹ پر موقوف نہیں بلکہ گلی کوچوں اور بازاروں میں قائم چھوٹے سے چھوٹے ریسٹورنٹ میں اصل ذائقے والی نہاری مل جایا کرتی تھی۔ اب تو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا نہاری کی دکان کھولے بیٹھا ہے، کہیں پیاز ٹماٹر والے گوشت کا ذائقہ تو کہیں ایسا لگتا ہے کہ قورمے میں آٹے کا آلن ملا دیا ہو، کہیں نہاری میں اجوائن کی مہک سارے ذائقے کا ناس مار دیتی ہے۔ بھلا نہاری میں اجوائن کون ڈالتا ہے۔ اور تو اور شان کے نہاری مصالحے میں بھی اجوائن شامل ہوتی ہے۔ جبکہ نہاری میں سونف زیادہ مقدار میں شامل کی جاتی ہے۔ نہاری میں پسا ہوا دھنیا بھی نہیں ڈالا جاتا بلکہ ثابت دھنیا اور کچھ دوسرے اجزا کی پلاؤ کی یخنی جیسی پوٹلی بنا کر ڈالی جاتی ہے۔ دلی کی نہاری کا ایک انتہائ اہم جزو پیپلی یعنی فلفل دراز کو تو عوام تو کیا بڑے بڑے شیف اور کُک جو مختلف ٹی وی چینلز پر ککنگ شو کے استاد بنے ہوئے ہیں تک نہیں جانتے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو کچھ خاص مصالحوں کی یخنی جیسی پوٹلی بنا کر نہاری تیار کرتے ہیں؟
نہاری کی ابتدا:
نہاری کی ابتدا سے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ نہاری دراصل ایک حکیمی نسخہ ہے۔ کسی زمانے میں دلی کا گرم موسم معتدل رکھنے کے لئے اس کے چاروں طرف ایک نہر کھودی گئ۔ لیکن اس نہر میں کوڑا کرکٹ سے آب و ہوا میں عفونت پھیل گئ۔ لوگوں میں نزلہ زکام اور سانس کی نالیوں کی سوزش اور بخار کی وبا پھیل گئ۔ ایسے میں حکیموں نے نہاری کا نسخہ ترتیب دیا کہ اگر یہ نہار منہ کھائی جائے تو اس وبا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے اور یوں نہاری نے عوام میں رواج پایا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر نہاری کو اس کے اصل نسخہ کے مطابق تیار کیا جائے تو اس سے کورونا کو بھی شکست دی جاسکتی ہے۔
دوسری روایت یہ ہے کہ لکھنؤ کے دلدادہ سمجھتے ہیں کہ اس کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد، نواب اودھ کے باورچی خانوں سے ہوا۔ نوابین اور امرائے سلطنت کو احساس تھا کہ اس آھستہ آھستہ پکے ہوئے گوشت اور اس کا سالن کھا لینے کے بعد ایسا خمار چڑھتا ہے کہ فجر اور ظہر کی نمازوں کے دوران ایک قیلولہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا وہ ایسا کرتے بھی تھے۔ گوشت میں موجود پروٹین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آھستہ آھستہ خون میں شکر بڑھتی جاتی جس کے نتیجے میں دن بھر بھوک کا احساس ہی نہیں ہوتا- جب ان کو نہاری کی غذائیت اور دیرپا توانائ فراہم کرنے کی خصوصیت کا احساس ہوا تو انہوں نے مزدور طبقے کو جو مختلف تعمیراتی سائٹس پر کام کرتا تھا، یہ شاندار کھانا ناشتے میں دینا شروع کردیا تاکہ مزدور بغیر تھکے دن بھر اپنا کام مستعدی سے انجام دیں۔ جو ایک وقت نہاری کھا کر، ایک کام میں جٹ جاتے، چاہے وہ ایک حویلی ہو، ایک محل، ایک سڑک، یا ایک ریلوے اسٹیشن۔ یہ مزدور ہندوستان کی تعمیر میں مصروف تھے۔
نہاری کی جنم بھومی دلی کی نہاری کا حال زار:
اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی لکھتے ہیں کہ “دلی میں بھی پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیا محل کے درمیان۔ ان میں سے ہر ایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔”لیکن اب یہ حال کہ ہے گزشتہ دنوں فیسبک ریل (Reel) پر انڈیا کے ایک فوڈ پیج پر دھلی کے ایک معروف ریسٹورنٹ کی نہار پکانے کا لائیو نظارہ دیکھنے کو ملا۔ اس فوڈ پیج کے دنیا بھر میں لاکھوں فالورز ہیں۔ پرانی دہلی کے عین بیچوں بیچ واقع اس ریسٹورنٹ میں نہاری تیار کرنے والا نوجوان اپنے بڑبولے پن اور باڈی لنگویج سے اتراتے ہوئے ایسا تاثر دے رہا تھا گویا وہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے سے بادشاہی مسجد سے متصل بھٹیار خانوں میں نہاری بناتا رہا ہے۔ لیکن ہماری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے اپنی نہاری کی دیگ کی ابتدا ہی اس میں پانچ کلو ٹماٹر ڈال کر کی! اب اندازہ کرلیجئے کہ نہاری کی جنم بھومی دلی کے قلب میں نہاری کا کیا حشر کیا جارہا ہے کہ دل پارہ پارہ ہوگیا۔ اب نہ وہ وضع دار نہاری والے رہے، اور نہ وہ نہاری۔ اب تو بس نہاری کے نام پر کاروبار رہ گیا ہے۔کراچی کی ادریس نہاری والے بڑے میاں بڑے نام اور شہرت کے باوجود آج بھی خود دیگ پر بیٹھتے ہیں۔ یاردوست کہتے ہیں شہر بھر میں برانچ کھول لو۔ بڑے میاں کہتے ہیں کہ ہر برانچ میں ادریس کہاں سے بٹھاؤنگا۔
نہاری کی وجہ تسمیہ:
نہاری کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ نہاری ایک سالن ہے جو دہلی والوں کی مخصوص ڈش ہے۔ صبح مشرق سے طلوع ہوتے سورج کی کرن کا وقت نہار کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اکثر حکیم حضرات کسی دوا کا وقت نہار منہ بتاتے ہیں۔ یعنی صبح اٹھتے ہی جو سب سے پہلی چیز کھائ جائے وہ نہار منہ کہلاتی ہے۔ نہاری اٹھارویں صدی کے اوآخر میں پرانی دہلی میں جامع مسسجد اور دریاگنج کے علاقے میں پکائی جاتی تھی۔ مغلوں کے دربار اور مسلمانوں کا من پسند ناشتا تھا۔ نہاری اور نان دہلی والوں کا ناشتہ ہے۔ یہ رات بھرپکا ئ جاتی تھی دہلی والے جامع مسجد فجر کی نماز پڑھنے جاتے تو برتن ہوٹل کے چبوترے پر دیگ کے پاس رکھ جاتے لائن کا خیال رکھتے نماز کے بعد دیگ کھولیں جاتی اور گرم نہاری اور نان لے کر گھر آتے۔ گھنٹے بھر میں دیگ ختم ھو جاتی۔ معروف کالم نگار محترمہ رئیس فاطمہ ایک مضمون میں لکھتی ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا دلّی کے کسی کوچے میں قورمے کی دیگ کھلتی تھی اور بریانی کی دیگ سے ڈھکن اٹھایا جاتا تھا تو اس کی مہک میرٹھ اور ہاپوڑ تک پہنچتی تھی۔‘‘
بہادر شاہ ظفر کے دور کی نہاری آج بھی!
دھلی کی جامع مسجد سے متصل کچھ ریسٹورنٹس میں آج بھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کے ریسٹورنٹ میں بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی نہاری دستیاب ہے۔ بیرے سے پوچھئے تو وہ فوراً رٹے رٹائے لچھے دار لہجے میں بتائے گا کہ جناب آپ نہاری نہیں تاریخ کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ وہ بتائے گا کہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے سے یہ روایت تھی کہ روزانہ نہاری میں سے ایک پیالہ نہاری بچا لی جاتی جسے اگلی صبح، نہاری کی تازہ دیگ میں ڈالا جاتا۔ یہ دعوی ہیڈ کیشئر سے لے کر ہوٹل کا تمام اسٹاف آپ سے کرے گا۔ یہ روایت کب سے جاری ہے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔ لیکن کھانوں کے شوقین افراد کے لئے اس کہانی میں زبردست اور تاریخی شان و شوکت ضرور موجود ہے۔
کراچی میں نہاری کی ابتدا:
قیام پاکستان کے بعد جب انڈیا سے مہاجرین کراچی آئے تو دلی سے تعلق رکھنے والوں نے کراچی میں نہاری کا آغاز کیا۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ کراچی میں نہاری کا آغاز بھائ نعمان ( یر داس اسٹریٹ،رنچھوڑ لین ) سے غالبا” سن 60، 62 سے شروع ھوا اصل نہاری والا ذائقہ انکے پاس ملتا تھا۔ اس کے بعد تقی، صابری اور ملک کی نہاری کافی مشہور ھوئ۔ لیاقت آباد میں بھورے خان کی نہاری ستر (70) کی دہائی میں متعارف ھوئ۔ کراچی میں دو ہوٹل ایسے تھے جو اصلی دلّی کے خاندانی باورچیوں کے تھے۔ ایک دہلی مسلم ہوٹل اور دوسرا دہلی کالی ہوٹل لیکن ان کی اولادوں سے باپ دادا کی روایت نہ نباہی گئ۔
1970ء کی دہائی میں کراچی کی آبادی بڑھنے کے سبب کراچی کے مضافات میں کئی علاقے بس گئے۔ یہاں نئے نئے ریسٹورنٹ کھلے۔ خاص کر پہلے نہاری جو قلب شہر کے چند نہاری کے ہوٹلوں سے ہی ملا کرتی تھی، ہر ہوٹل کے باہر "دہلی کی نہاری” کا حوالہ ضرور ہوتا تھا۔ کراچی کے چند اہم ریسٹورینٹس میں صابری ہوٹل، ملک کی نہاری، دہلی ہوٹل، دہلی مسلم کالی ہوٹل، طارق روڈ کی نہاری، ناظم آباد کی ممتاز نہاری، زاہد کی نہاری، سہیل کی نہاری، کیفے ذائقہ، جاوید کی نہاری، ادریس کی نہاری ، نہاری ان، کراچی نہاری اور تاج نہاری کے نام لیے جاتے ہیں۔تقی کی نہاری کامزہ بہت ہی منفرد اور شاندار ہوا کرتا تھا۔ زاہد کی کم مرچ والی نہاری جبکہ ملک کی نہاری میں مرچ تیز ہوتی تھی جاوید کی نہاری کا رنگ کافی گہرا ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میں نہاری کسی بھی ریسٹورنٹ سے آۓ ہر نہاری پر دیسی گھی اور پیاز کا بگھار لگایا جاتا ہے۔کراچی والوں کے گوش گزار کردوں کہ اس
وقت کراچی میں اگر کہیں واقعی دلی کی روایتی نہاری اپنے اصلی ذائقے کے ساتھ دستیاب ہے تو وہ پی آئ بی کالونی میں مُلّا کی نہاری ہے۔ اس نہاری کی سند قبولیت کے لئے یہی کافی ہے کہ دھلی مسلم ہوٹل والوں کے پوتے صاحب جو ہمارے فیسبک دوست ہیں وہ مُلّا کی نہاری کے ایسے رسیا ہیں کہ ھفتے میں ایک بار تو لازمی وہاں نہاری کھانے جاتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی لے کر جاتے ہیں۔ ہمیں بھی کئ بار مدعو کرچکے ہیں لیکن ہم اپنی روایتی سستی اور کاہلی کی وجہ سے نہاری کی یہ دعوت مِس کردیتے ہیں۔ مُلّا نہاری کے بالمقابل کراچی کا بہترین فرائ قیمہ اور فرائ گوشت کا ریسٹورنٹ بھی ہے جو اُس وقت سے قائم ہے جب کراچی والے کڑاھی کے ذائقے سے نا آشنا تھے۔ کراچی میں کڑاھی گوشت اور فرائ مٹن و قیمہ صرف لسبیلہ چورنگی اور سُہراب گوٹھ پر ٹرک ڈرائیوروں کے لئے قائم آفریدی پشتونوں کے ریسٹورنٹس پر ملا کرتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دھلی مسلم ہوٹل والے کب کے اپنا ہوٹل بیچ باچ کر امریکہ سدھار گئے۔ اب ان کی اولادیں وہاں پیزا فروخت کررہی ہیں۔
بھٹیارے کی اصلی نہاری:
ہوٹل یا بھٹیارے کی نہاری کا جو ذائقہ ہے، وہ دراصل اس زمین میں گڑی دیگ میں رات بھر ہلکی آنچ پر پکنے والے گوشت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ نہاری ہم نے بھی کھائ ہے۔ تندور سے نکلی ہوئ گرم گرم پھولی ہوئ روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ اس پر جھاڑی ہوئ نلی اور بھیجا ، اوپر سے کڑکڑاتے دیسی گھی میں لال پیاز کا تڑکا، حلوان بونگ کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کے باریک لچھے، کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائیاں، ھلکا سا لیموں کا نچوڑ۔ یہ تمام لوازمات سے مزین نہاری کا لطف اٹھانے واسطے آپ کو نہاری کی دکان پر صبح سویرے خود موجود ہونا چاہئے۔ گھروں میں یہ تمام لوازمات ایک ساتھ مہیا کرنا بڑا کٹھن ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا ہے۔ جب ملازم گرم گرم روٹی لاتا جاتا ہے اور آپ حلوے جیسی نرم گلی ادلے کی بوٹی کے ریشے کے ساتھ نلی کی مینگ اور بھیجے کی پُھٹکی نوالے میں لپیٹ کر اسے گاڑھی گریوی اور سرخ دیسی گھی کے روغنی تار میں تر کر کے نوالہ منہ میں رکھتے ہیں تو واللہ خدا کی خدائی یاد آجاتی ہے۔کراچی کے ہوٹلوں میں نہاری اسی طرح بنتی ہے۔ صبح سویرے نہاری کی دیگ پر بیٹھنے والا پیڑھی یا گدی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا دیگ کے ڈھکن کے چاروں طرف لگا آٹا اتار کر ڈھکن ہٹاتا ہے۔ اس ڈھکن کے نیچے دیگ کے کناروں پر جما ہوا ململ کا بل دے کر گول موٹے رسے نما کپڑا ھٹاتا ہے تو تیز بھاپ کی کیا ہی اشتہا انگیز سونف، سونٹھ اور گوشت مصالحوں کی بھاپ کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ نہاری کے ذائقے میں ایک دخل اس ململ کے کپڑے کا بھی ہوتا ہے جس کو صرف پانی سے کھنگال کر سکھانے کو پھیلا دیتے ہیں۔ رات کو پھر وہی کپڑا دوبارہ نئی نہاری چڑھاتے وقت دیگ کے منہ پر باندھ دیا جاتا ہے۔صبح جب نہاری کی دیگ کھلتی ہے تو اس میں پکی پکائ نہاری موجود ہوتی ہے۔ جس میں روغن گریوی گوشت اور ھڈیا سب ہوتی ہیں۔ رات بھر پکنے کے بعد سارا گھی تار اور چربی کی چکنائ اوپر آجاتی ہے۔ اب وہ بھٹیارہ سب سے پہلے تو ایک الگ بھگونے میں وہ سارا تار نکال کر الگ کرلیتا ہے۔ اس کے بعد دیگ میں صرف ھلکے رنگ کی بغیر تار والی گاڑھی گریوی رہ جاتی ہے ۔اس گریوی کے اندر موٹے موٹے دو دو کلو کے گوشت کے بوٹے پڑے ہوتے ہیں اور نلیاں بھی۔
اب بھٹیارہ ضرورت کے مطابق دو چار بوٹے اس گھول سے نکال کر الگ تسلے میں رکھتا ہے اور ھڈیاں نکال کر الگ۔ اب جب کسی کو نہاری دینی ہوتی ہے تو سب سے پہلے وہ بوٹے میں سے کفگیر کی مدد سے بوٹی توڑتا ہے اور پلیٹ میں ڈالتا ہے۔ اس کے بعد دیگ سے گریوی نکال کر اس بوٹی کے اوپر ڈالتا ہے۔ پھر روغن کے بھگونے سے تار نکال کر اس گریوی کے اوپر ڈالتا ہے۔ اگر نلی نہاری ہو تو سامنے رکھا نلی کا گودا بھی ڈال دیتا ہے۔ اس پر مصالحہ چھڑک دیتا ہے۔جب تسلے کی بوٹیاں ختم ہوجاتی ہیں تو دیگ کی گریوی سے دو چار بوٹے دوبارہ نکال کر تسلے میں ڈال لیتا ہے۔یہ سمجھئے کہ نہاری کا سارا جوس اور غذائیت اس کی گریوی میں ہوتی ہے۔ان کا کفگیر کوئی چار فٹ لمبا اور کافی بھاری ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہاری کی دیگ پر بیٹھ کر اس مہارت اور پھرتی سے نہاری نہیں نکال سکتا بلکہ اس کے لیے بہت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کام کے لیے ہوٹل پر ایک مخصوص ملازم ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ مہارت نہاری کو پارسل کے لیے پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔ نہاری کا اصل لطف بس اسی وقت ہوتا ہے۔
آجکل گھر گھر پیکٹ مصالحہ نہاری:
آج کل اکثر گھر گھر پیکٹ مصالحہ اور گوشت کُکر میں ڈال کر گھنٹہ بھر میں نہاری تیار کرلی جاتی ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی نہاری ہوتی ہے؟ آپ لاکھ کوشش کرلیجیے ریسٹورنٹ جیسی نہاری نہیں بن پاتی۔ خواہ آپ گھر کے مصالحے استعمال کریں یا پیکٹ والے۔ گھر کی نہاری میں وہ ذائقہ نہیں آتا جو بازار کی نہاری میں ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خاص باتیں یاد رکھیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اصلی نہاری میں پسا دھنیا نہیں ڈالا جاتا۔ جتنی بھی نہاری کی ترکیبوں میں دھنیا پاؤڈر شامل کیا جاتا ہے، وہ غلط ہے۔ نہاری کی تیاری میں دوسری خاص راز کی بات کچھ خاص مصالحے بھی ہیں جو عموما گھر میں تیار ہونے والی نہاری میں شامل نہیں کیے جاتے۔ اس کے علاوہ کچھ ثابت مصالحے جن کی پوٹلی بنا کر نہاری میں ڈالی جاتی ہے۔
دلی کی نہاری کے اصل ذائقے کا راز:
آج آپ کو بالکل اصلی دہلی والی نہاری گھر میں تیار کرنے کی ترکیب بتائی جا رہی ہے۔ ترکیب میں موجود تمام اجزا شامل ہوں گے تبھی اصلی دھلی والی نہاری بن سکے گی۔ ان اجزا میں ایک خاص جز پپلی ہے۔ پپلی کو فلفل دراز بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ لانگ پیپر کہلاتی ہے۔ اس کا مزہ چرپرا اور تیز مرچ جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہاضم ہے اورقوت باہ بھی بڑھاتی ہے۔ بقایا تمام مصالحے تو آپ کو عام گروسری اسٹور سے مل جائیں گے، لیکن پپلی آپ کو پنساری کے پاس ملے گی۔ یہ بھی ایک طرح کی مرچ ہے جو لمبی لمبی اسٹکس کی صورت میں ہوتی ہے اور اس کی ایک خاص مہک یا خوشبو ہوتی ہے جس کے بغیر اصلی دہلی والی نہاری نہیں بن سکتی، اس لیے نہاری بنانے کے لیے اس کو لازمی حاصل کیجیے۔ کچھ لوگ آٹے کو بھون کے ڈالتے ہیں وہ بھی غلط ہے بلکہ کچھ سیلف میڈ ریسپیز میں کارن فلاور یا میدہ ڈالتے بھی دیکھا ہے جو بالکل غلط ہے۔ صرف نارمل چکی آٹا ہلکے گرم پانی میں لئی سی بنا کے ڈالیں۔ گائے کی نہاری سب سےزیادہ اچھی بنتی ہے بلکہ اصلی نہاری کا ذائقہ بیف میں ہی آتا ہے کیونکہ اس میں شامل چکنائی ذائقے کو دوبالا کرتی ہے اور اس کے ریشے بھی اچھے بنتے ہیں۔
دلی نہاری کی ریسپی:
اب ہم آپ کو اصلی ریسٹورنٹ والی دہلی نہاری کی ترکیب بتاتے ہیں۔ نہاری کے لیے سب سے بہترین گائے کا گوشت ہے۔ یہ گوشت بونگ کا ہونا چاہیے اور چکنائ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بڑے ٹکڑے ہونے چاہییں۔ مثال کے طور پر اگر یک کلو گوشت کا ٹکڑا ہے تو اس کے چار ٹکڑے کروا لیجیے۔ اس سے چھوٹے نہیں۔ اس کے علاوہ گوشت پر لگی چکنائی وغیرہ بھی بالکل صاف نہ کروائیں۔
اجزا:
گائے بونگ کا گوشت چربی والا ایک کلو (چار بڑے ٹکڑے) ، نلی والی ہڈیاں 1کلو،
نمک حسب ضرورت، کشمیری مرچ پاؤڈر (اس کا پاؤڈر بازار سے مل جاتا ہے) 2 ٹیبل چمچ، ہلدی آدھا چائے کی چمچ، سونٹھ 2 بڑے ٹکڑے، پپلی یعنی فلفل دراز 4 عدد، بادیان کے پھول 2 عدد، جائفل پسا ہوا چوتھائی چائے کا چمچ، جوتری پسی ہوئی چوتھائی چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا کھانے کا چمچ، سفید زیرہ آدھا کھانے کا چمچ، کالا زیرہ آدھا کھانے کا چمچ، دارچینی 2 ٹکڑے، (یہ اوپر والے تمام مصالحے باریک پیس لیجیے)پیاز ایک درمیانی گٹھی، تیل یا گھی 3 کپ، ادرک لہسن پیسٹ 3 کھانے کے چمچ، آٹا آدھا کپ، پانی حسب ضرورت
پوٹلی کا مصالحہ:
ثابت دھنیا تین کھانے کے چمچ، تیج پات 2 بڑے پتے، بڑی الائچی کچلی ہوئ 2 عدد، چھوٹی الائچی کچلی ہوئ 5 عدد، سونف 3 کھانے کے چمچ، لونگ 6 عدد، (یہ سب مصالحے ایک ململ کی پوٹلی میں باندھ لیجیے)،کچھ لوگ سونف کو پیسے ہوئے مصالحے میں شامل کرتے ہیں۔گارنشنگ کے لیے۔ادرک لمبی لمبی باریک کترنیں کٹی ہوئی، حسب ضرورت ہری مرچ باریک کٹی ہوئی لیموں، نہاری کا اسپیشل گرم مصالحہ سرو کرتے وقت اوپر سے چھڑکنے کے لیے۔ نہاری کا اسپیشل گرم مصالحہ سرو کرتے وقت اوپر سے چھڑکنے کے لئے:
اجزا:پپلی۔ 2 عدد، سفید زیرہ2 کھانے کے چمچ، کالی مرچ۔ ایک کھانے کا چمچ
بڑی الائچی2 عدد، لونگ8 عدد، دارچینی۔ڈیڑھ انچ کا ٹکڑا۔
نہاری اسپیشل گرم مصالحہ کے تمام اجزا کو گرائنڈر میں بالکل باریک پیس کر بوتل میں بھر لیجئے۔ اور نہاری سرو کرتےوقت زرا سا پلیٹ میں چھڑک دیجئے۔ اس سے نہاری مزید ذائقہ دار اور خوشبو دار ہوجاتی ہے۔
ترکیب:
گوشت اور نلیاں اچھی طرح دھو لیجیے۔ا یک کافی بڑی بھاری پیندے کی پتیلی میں گھی گرم کیجیے۔ پیاز لال کیجیے، اس میں گوشت اور نلیاں اور ادرک لہسن ڈال کر دس منٹ بھون لیجیے۔ اس کے بعد مرچ، کشمیری مرچ نمک ہلدی اور دوسرے پسے ہوئے تمام مصالحے اس میں شامل کردیں۔ یہ مصالحے ڈال کر پانچ منٹ بھونیے۔ اس کے بعد اس میں اتنا کافی پانی ڈالیں کہ تمام بوٹیاں اچھی طرح ڈوب جائیں اور پکنے کے دوران اچھی طرح گل جانے کے بعد بھی شوربا گریوی موجود رہے، اس کے ساتھ ہی مصالحوں والی پوٹلی بھی ڈال دیجیے۔ اس میں آٹا بھی پانی میں اچھی طرح گھول چھان کر شامل کردیجیے۔ اب اس کو پہلے تیز آنچ پر پکائیں، جب ابلنے لگے تو آنچ ھلکی کردیجیے اور پتیلی کے سائڈوں پر پر کوئی ململ کا کپڑا جما کر اس پر ڈھکن رکھ کر کوئی وزن رکھ دیں، جیسے کہ سل کا بٹہ وغیرہ۔ اب اس کو ہلکی آنچ پر چار گھنٹے تک پکنے دیجیے۔ یاد رکھیے کہ نہاری کُکر میں نہیں بنائی جاتی۔ اگر کُکر میں بنائی تو مصالحوں کا ذائقہ اور خوشبو نہاری گریوی اور گوشت میں رچ بس نہیں پائے گا۔ چار گھنٹے بعد چیک کیجیے۔ یاد رکھیے کہ نہاری کا گوشت بالکل حلوان ہونا چاہیے۔ چمچے سے دبانے پر ریشہ ریشہ ہو جائے۔ اگر گوشت خوب اچھی طرح گل گیا اور روغن اوپر آگیا ہو تو روغن کو کفگیر کی مدد سے اتار کر ایک الگ برتن میں ڈال لیجیے۔ دھنیے اور تیز پات کی پوٹلی اچھی طرح شوربے میں دبا دبا کر نچوڑ کر الگ کر دیجیے۔
اب نہاری کا گاڑھا پن چیک کیجیے۔ اگر گاڑھا پن کم ہو تو آدھا کپ آٹا پانی میں گھول کر چھان لیجیے اور اس کو نہاری میں شامل کر کے ہلکی آنچ پر اتنا پکائیں کہ گریوی مناسب گاڑھی ہوجائے۔ نہاری تیار ہے۔ نلیاں نکال کر علیحدہ رکھیے اور ان کا مغز نکال لیجئے۔اب جب نہاری سرو کرنے کے لیے پلیٹ میں نکالیں تو الگ سے نکالی ہوئی نلی کا کچھ مغز اور پہلے سے نکالا ہوا تری یا روغن بھی تھوڑی سی اوپر ڈال دیں۔ اس پر ذرا سا پسا ہوا اسپیشل نہاری گرم مصالحہ چھڑک کر گارنش والے ہرے مصالحے کے ساتھ پیش کیجیے۔ تندوری نان کے ساتھ تناول فرمائیں۔ اور گھر میں اسپیشل دہلی کے بھٹیارے والی نہاری کا لطف اٹھائیں۔
کچھ لوگ نہاری پر دیسی گھی میں پیاز لال کر کے اس کا بگھار بھی لگاتے ہیں۔ مغز نہاری کے لیے ایک عدد گائے کا مغز یا تین عدد بکرے کے مغز کو پسا لہسن اور ہلدی ڈال کر ابالیں۔ دس منٹ ابالنے کے بعد مغز کی جھلی اور نسیں صاف کر کے نہاری میں ڈال کر پانچ منٹ پکائیں۔ پھر اس کو الگ نکال کر رکھ لیجئے۔ سرو کرتے وقت تھوڑا سا مغز بھی پلیٹ میں شامل کردیں۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ نے تمام مصالحوں کے ساتھ درست طریقے سے نہاری بنائی تو آپ کو نہاری کا وہی ذائقہ ملے گا جس کو پرانے لوگ یاد کر کے کہتے ہیں کہ اب وہ بچپن کی نہاری کا ذائقہ نہیں ملتا۔
Ref:
Nihari, a gift from Nawabs – Times of India, History Of The Meaty and Buttery Breakfast,
Food Stories: Nihari – DAWN.COM, History of Nihari,
Sealed