شفیق مسکراہٹ سے لبریز باریش چہرہ ۔موٹی عینک کے پیچھے سے جھانکتی روشن اور سوچتی آنکھیں۔ کشادہ پیشانی۔ سلیقے سے کنگھی کئے گئے چھوٹے چھوٹے سفید بال اور بھاری وجود پر سفید یا آسمانی رنگ کا کاٹن کا سوٹ۔
خوش لباس۔ خوش مزاج۔خوش خط اور خوش بیان بزرگ عبدالرشید شاہد صاحب کی شخصیت پہلی ملاقات اور پہلی نظر میں ہی دل میں اتر جانے والی تھی۔ آپ اُمّت گروپ کے شعبہ آرٹ /کتابت کے ہیڈ تھے ۔رشید صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ایڈیٹر انچیف رفیق افغان صاحب کے نامکو سینٹر آفس کے میز نائن فلور پر واقع چھوٹے سے کمرے میں ہوئی جہاں بید سے بنی قدرے آرام دہ کرسی پر تشریف فرما مدیر اعلٰی کی میز کے سامنے دھری دو کرسیاں یوں آپس میں جڑی ہوتی تھیں کہ اگر چائے کی پیالی میں چینی ملانا پڑ جائے تو برابر والے کے کپڑے بچانے کے لیے خصوصی احتیاط کرنا پڑتی ۔اور اگر برابر والی نشست پر رشید صاحب جیسے بھاری وجود والے خوش لباس بزرگ بیٹھے ہوں تو احتیاط کے تقاضے اور بڑھ جاتے تھے۔
یہ اندازا” چھ بائی آٹھ کا سیل نما کمرہ ہوگا جس کی دیوار پر بنے کیبنٹ اس کا دامن مزید تنگ کرنے پر بضد تھے۔رفیق صاحب نے ہمیں جنگ گروپ سے بلوا کر ہفت روزہ” غازی” کے مدیر کی ذمہ داری سونپی تھی. یہ فروری 1999 کی بات ہے، تب اخبارات اور رسائل کی ریڈرشپ مائل بہ زوال نہ ہوئی تھی اور ہمارا میگزین ہر ہفتے 20 سے 25 ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا اور کراچی کے بیشتر اسٹالز سے تیسرے چوتھے دن ہی فروخت ہو جاتا تھا۔ اس کامیابی کے پیچھے جہاں نیوز میگزین میں شامل ایکسکلوسو اور تحقیقاتی رپورٹس کا ہاتھ تھا وہیں اس کے سرورق یا ٹائٹل کی دلکش اور دیدہ زیب ڈیزائننگ اور طباعت بھی کارفرما تھی اور یہ شعبہ عبدالرشید شاہد صاحب کا مرہون منت تھا، جو بے بدل آرٹسٹ مومن رحیم (مومن خان) کی مدد سے ٹائٹل تیار کرتے، رپورٹس کی سرخیاں یا ہائی لائٹس بھی لکھتے اور میگزین کا پورا لے آؤٹ بھی اپنی نگرانی میں تیار کراتے تھے۔
رفیق افغان صاحب کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کام اور اہلیت کی قدر کرتے تھے اور باصلاحیت ساتھی کی ناگوار بات بھی درگزر کر جاتے تھے۔ہمیں مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔۔”لیجیے جناب یہ رشید شاہد صاحب ہیں ،صلاح الدین صاحب کے ساتھی اور ہمارے بزرگ۔۔ اس دفتر کے دو تین لوگوں میں سے ایک ہیں ، جو مجھے بھی ڈانٹ سکتے ہیں۔ اپنی مرضی سے،مگر ہماری مرضی کا کام کرتے ہیں۔ اب آپ کو بھی ان سے روز کام پڑا کرے گا”
چائے کی پیالی پر ہونے والا یہ تعارف ایسے تعلق میں بدلا کہ رشید صاحب سے ہماری روزانہ گھنٹوں پر محیط نشستیں ہونے لگیں۔”غازی” کا دفتر اُمّت سے الگ اسی نامکو سینٹر کے چوتھے فلور پر تھا ،جہاں رشید شاہد صاحب ایک کمرے میں بڑی سی میز پر رکھے شیشے پر اپنا قلمدان سجائے انہماک سے کام کر رہے ہوتے۔ شیشے کے نیچے خطاطی کے مختلف نمونے سجے ہوتے۔ ہمارے علاوہ آرٹسٹ مومن رحیم۔ برادرم یعقوب غزنوی اور بچوں کے نامور ادیب اختر ابن آس (جو اس وقت اُمّت کے میگزین ایڈیٹر تھے) ، احمد انصاری سمیت چند ایک لوگوں کو ہی رشید صاحب سے بے تکلفانہ میل جول کا اعزاز حاصل تھا اور گاہے گپ شپ کے دوران کمرے میں قہقہے بھی گونجتے رہتے، جن میں بلند آہنگ اور بھاری بھرکم قہقہہ خود رشید صاحب کا ہوتا۔ دراصل رشید صاحب کی شخصیت اتنی بارعب تھی کہ ہما شما ان سے بے تکلفی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، مگر جو لوگ ان کے قریب رہے،وہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر بیک وقت ایک شفیق بزرگ، ایک خوش مزاج جوان، ایک شرارتی لڑکا اور ایک معصوم بچہ موجود تھا جو وقتاً فوقتاً باہر جھانک کر دیکھتا رہتا تھا کہ آس پاس کوئی اس کی مرضی کی بات کرنے والا ہے یا نہیں۔چنانچہ کبھی ان کے چہرے پر بچوں والی مسکراہٹ رقص کر رہی ہوتی تو کبھی ایک سخت گیر بزرگ کا دبدبہ عود کر آتا ۔کبھی ان کے اندر کا ادیب جاگتا تو وہ ابن آس کو بلا کر اس سے ڈپٹی نذیر احمد ،ابن صفی، محی الدین نواب اورایچ اقبال جیسے قلمکاروں پر گفتگو شروع کر دیتے، کبھی بچوں کی کہانیوں کی کتب کا ٹائٹل زیر بحث آتا اور کبھی مومن رحیم کے ساتھ غازی کے متوقع ٹائٹل کی باریکیوں پر ماہرانہ گفتگو کر رہے ہوتے۔ اس دوران کبھی کبھار دونوں آپس میں الجھ بھی پڑتے مگر پھر یہ نوک جھونک اور لڑائی چائے سموسے پر ختم ہو جاتی۔ مومن کے ساتھ ان کا پیار اتنا تھا کہ اُمّت کے ایک سالگرہ ایڈیشن میں "میں وہی ہوں مومن مبتلا” کے عنوان سے پورا کالم لکھ مارا. اس کالم کے ابتدائیے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں، جس سے آپ رشید صاحب کی فن تحریر میں مہارت، قوت مشاہدہ اور زبان و بیان پر عبور کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
"تراشیدہ پینسل کی مانند دبلے پتلے اور لمبے سے ایک صاحب دہلیز پر کھڑے تھے، لمبوترا چہرہ، زندگی اور شرارت سے بھرپور گول گول آنکھوں سے بے چینی مترشح تھی۔ نظریں ملتے ہی پتلے پتلے پان زدہ ہونٹوں کو حرکت ہوئی۔ میں مومن ہوں۔ مومن کے نام سے سب جانتے ہیں لیکن پورا نام مومن رحیم ہے”
رشید صاحب "چراغ آفریدم” کے عنوان سے امت میں کالم لکھتے تھے. وہ کمال کے داستان گو اور کہانی کار تھے۔ایسے کہ آپ ان کی تحریر کے سحر میں گم ہو جائیں۔ سادگی و پرکاری، بے خودی ہشیاری کا نمونہ۔ سادہ نگاری کے مشکل ترین فن سے بخوبی آگاہ تھے۔ اپنی تحریروں میں تشبیہات اور استعارے اس کمال سے استعمال کرتے کہ کبھی تحریر بوجھل محسوس نہ ہوئی۔ ہلکا پھلکا ، شائستہ اور شستہ انداز تحریر ان کی شناخت تھی۔
وہ اپنے تجربات، مشاہدات اور احساسات کو کسی ماہر داستان گو کی طرح دل نشین اور سہل انداز میں بیان کرتے۔حج بیت اللہ کے سفر سے متعلق ان کی کتاب "قدم قدم سوئے حرم” کا ورق ورق ان کی اس حیران کن صلاحیت کی گواہی دیتا ہے. یادوں کی کہکشاں کو اپنی سوچوں کے ہالے میں مقید رکھتے اور قاری کو انگلی پکڑ کر غیر محسوس انداز میں اپنے ساتھ دور تک لے جاتے جہاں سے وہ سفر کی تھکان کے بجائے پرلطف سیاحت کی سرشاری کے ساتھ لوٹے۔ فن خطاطی اور آرائش میں اپنے استاد شریف گلزار صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ان کی کتاب "خطاطی کا شاہجہان” پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے. اس کے علاوہ ان کی زیر طبع کتابوں میں ایک ناول "سونالی” اور کالموں کے دو مجموعے "کنویں والیاں” اور "یک چشم گل” شامل ہیں۔
رشید صاحب کی شخصیت تخلیقی اور جمالیاتی ذوق سے مرصع تھی۔ خطاطی اور مصوری۔طبابت اور درس و تدریس خاندانی وصف تھے، مگر فن خطاطی ان کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا تھا۔پاکستان میں خطاطی کے چند نامور ترین اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا اور پھر وہ 60 کی دہائی میں ایک ایسے وقت میں اخبارات کی طرف آئے جب ایک کاتب یا خطاط ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ تب کاتبوں کو ہاتھ کے چھالے کی طرح سنبھال کر رکھا جاتا تھا کہ کمپیوٹر نام کی چیز سے کوئی واقف نہ تھا اور پھر عبدالرشید شاہد صاحب جیسے استاذ الاساتذہ خطاط کے تو کیا کہنے جو ساتھ لے آؤٹ ڈیزائننگ اور آرائش کے بھی ماہر تھے۔ امت۔ غازی۔ تکبیر کے علاوہ اخبار خواتین سمیت ملک کے کئی اخبارات و جرائد میں قوس قزح کے رنگ بھرتے رہے۔ شکیل عادل زادہ کے شہرہ آفاق ڈائجسٹ” سب رنگ” کے رنگوں کو دلکش بنانے میں اہم کردار ادا کیا. کسی تقریب میں شکیل عادل زادہ انہیں دیکھ لیتے تو دوڑے چلے آتے اور ان کی میز پر بیٹھ کر محفل جما لیا کرتے۔ آفتاب ظفر جیسے نامور آرٹسٹ سے یارانہ تھا۔
1942 میں گجرات کے ایک دور افتادہ گاؤں شادی وال کے ایک مذہبی گھرانے میں جنم لینے والے رشید شاہد نے صحافت اور ادب کے اساتذہ کے ساتھ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر تعلق بنایا۔ صلاح الدین صاحب نے تکبیر کی بنیاد رکھی تو رشید صاحب ان کی ٹیم میں شامل تھے حالانکہ وہ اس وقت بہت بڑے اخباری گروپ مشرق میں اہم پوزیشن پر تھے مگر صلاح الدین صاحب کو انکار نہ کر سکے۔ (ایک صاحب نے کمنٹس میں تصحیح کرائی ہے کہ رشید صاحب نے تکبیر نکلنے کے دو برس بعد ادارہ جوائن کیا)پاکستان میں فن خطاطی سے معمولی شدبد رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ عبدالرشید شاہد اس فن میں کس مرتبے پر فائز تھے۔وہ خط نستعلیق اور نسخ کے ماہر اساتذہ میں سے ایک رہے ہیں۔ اخبارات میں استعمال ہونے والی خط کوفی کی ایک مخصوص طرز کے موجد بھی ہیں۔
رشید صاحب اپنے پیشے سے عشق کرنے والے چند لوگوں میں سے ایک تھے۔ کبھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ "پرفیکشنسٹ” کی اصطلاح ان جیسے لوگوں کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے. کبھی کوئی ٹائٹل یا آئیڈیا پھنس جاتا تو سگریٹ کو دو درمیانی انگلیوں میں پھنسا کر اور ہاتھ کا مکہ بنا کر خلا میں گھورتے ہوئے گہرا کش لیتے۔پھر دوسرا اور تیسرا کش۔۔ پھر قرطاس پر ان کی مرضی کے رنگ ابھر آتے ۔کسی بات پر خوش ہوتے تو کھل کر قہقہہ لگاتے۔ شدید غصہ آتا تو کہتے "کچھ خدا کا خوف کر یار” وہ اپنے جونیئرز کو واحد متکلم کے صیغے سے مخاطب کرتے مگر اس سے شفقت محبت اور اپنائیت چھلک رہی ہوتی. اس شفقت کا بڑا حصہ پیار بھری ڈانٹ کی صورت میں امت کے قدیم ترین ملازم جی ایم (غلام محمد) کے حصے میں آتا۔عہدے کے لحاظ سے کوئی سینئر چاہے عمر میں کتنا ہی چھوٹا ہو ،اسے پورا احترام دیتے اتنا کہ وہ شرمندہ ہو جائے۔
2016 میں اسلام آباد منتقلی کے بعد کراچی جانے پر ہی ملاقات ہو پاتی تھی۔ وہ بھی آخری بار شاید رفیق افغان صاحب کے انتقال پر ہوئی۔ جب بھی فون پر بات ہوتی میں کہتا رشید صاحب آپ کے پاس بیٹھنا ہے، بہت تفصیل سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، مگر اس کا موقع نہ آیا ۔کچھ عرصہ پہلے عمرے کیلئے حجاز مقدس جانا ہوا تو مسجد نبوی کے احاطے سے انہیں کال کی جس پر بہت خوش ہوئے۔ یاد آیا میں نے رشید صاحب کو ان کی داستان حیات کے حوالے سے سوالات کی ایک فہرست بھی بھیجی تھی جسے امت میں قسط وارشائع ہونا تھا۔ شاید انہوں نے کچھ یا تمام سوالوں کے جواب لکھ رکھے ہوں۔ مگر اب تو امت کے داستان گو بابا جی اپنی بیاسی سالہ داستان حیات کے ساتھ اپنے تخلیق کار کے پاس پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے