پاکستان کے سب سے قدیم سکھر بیراج کا پچاس ٹن وزنی گیٹ نمبر 47 نامعلوم وجوہات کی بنا پر جمعرات کی رات پانی میں گر کر غائب ہوگیا ہے اور ابھی تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔یاد رہے کہ سکھر بیراج پر 60 فُٹ چوڑے 66 گیٹ لگے ہوئے ہیں جن میں سے ہر گیٹ کا وزن 50 ٹن ہے۔بیراج کے سکھر بیراج کے گیٹ نمبر 44 کو بھی نقصان پہنچا ہے لیکن یہ ابھی تک بیراج پر موجود ہے۔
سنہ 2010 کے سُپر فلڈ میں سکھر بیراج سے 10 لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی گزرا تھا لیکن بیراج سنبھال گیا تاہم جمعرات کی رات سکھر بیراج پر 1 لاکھ 60 ہزار کیوسک پانی پہنچ رہا تھا جس میں سے 60 ہزار کیوسک دائیں بائیں کنارے کی نہروں سے نکال کر بقیہ 1 لاکھ کیوسک نیچے کوٹری کی طرف بہہ رہا تھا۔
سکھر بیراج سنہ 1923-32 کے دوران تعمیر ہوا۔ اس کا نام لائیڈ بیراج تھا۔ یہ بیراج کراچی سے 509 کلومیٹر شمال میں سکھر کے پاس دریائے سندھ پر بنایا گیا۔یہ بیراج 2 کلومیٹر لمبا ہے۔اس بیراج کے دائیں بائیں سے نکلنے والی 7 نہروں کی لمبائی 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ بنتی ہے جس سے 76 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے جوکہ پورے ملک کے زرعی رقبے کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ یہ رقبہ دنیا میں کسی بھی ایک سٹرکچر سے زیرِآب پاشی آنے والا سب سے زیادہ رقبہ ہے۔
گیٹ نمبر 47 کے گرنے کے واقع کے بعد سکھر بیراج سے نکلنے والی تمام نہروں کو بند کرکے سکھر بیراج کے گیٹ کھول دیے گئے ہیں تاکہ اوپر سے آنے والا پانی بیراج سے فوراً نیچے چلا جائے اور دریا میں پانی کا لیول کم کرکے بیراج کے گیٹ پر مرمت کا کام کیا جاسکے۔ تاہم نہروں کی بندش سے کاشتکاروں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔