مُلک میں ابتدائی مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ مون سون کے تین مہینوں میں ہی آسمان سے ہماری پورے سال کی ضروریات کا پانی برس جاتا ہے لیکن ہم بارش کا صاف ترین پانی گٹروں میں بہا دیتے ہیں اور پھر موٹر یں چلا چلا کر ٹینکیاں بھر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اربن فلڈنگ کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔صرف لاہور شہر میں لگے 1800 سو سے زیادہ ٹیوب ویل روزانہ زمین سے 400 کروڑ لٹر پانی لہوریوں کے پینے کے لئے کھینچ لیتے ہیں ۔ صنعتی اور کاروباری مقاصد کے لئے کھینچا گیا 150 کروڑ لٹر پانی اس کے علاوہ ہے لیکن شہر دھرتی ماں کو اس کے بدلے میں کتنا صاف بارشی پانی واپس بھیجتا ہے؟
بارش کا پانی سب سے صاف پانی ہوتا ہے لیکن کنکریٹ کی چھتوں اور اسفالٹ کی سڑکوں کی وجہ سے یہ پانی ری چارج ہونے کی بجائے فوری طور پر سڑکوں ، سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کے ذریعے گٹر والے پانی میں بدل جاتا ہے جس سے نہ صرف اس کی کوالٹی بدتر ہوجاتی ہے بلکہ یہ سیلابی پانی بن کر شہروں کے انفراسٹرکچر نقصان پہنچاتا ہےتاہم اگر اس پانی کو اکٹھا کرکے زیرزمین ایکوائفر کوری چارج کرنے کا بندوبست کیا جائے تو نہ صرف اربن فلڈنگ اور فلیش فلڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بڑے بڑے ڈیم بنائے بغیر بہت زیادہ پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔اسے ہم بندوبستی ری چارج کہیں گے۔ ملک میں پانی کی تیزی سے بگڑتی صورتِ حال میں فوری طور پر آبادی والے علاقوں میں ری چارج کنویں، ڈونگی گراونڈز، ری چارج خندقیں ، تالاب، جوہڑ بنانے پر زور دیا جائے جب کہ نالوں اور دریاؤں میں ربڑ ڈیم اور زیرزمین ڈیم بنا کر مون سون کے دوران بارش اور سیلاب کے پانی کو زیرِزمین ری چارج کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے راوی اور ستلج دریا کے سارا سال خشک رہنے والے حصے، پرانے دریائے بیاس کے سارے راستے اور نہروں اور دوآبوں کے زیریں علاقے انتہائی موزوں جگہیں ہیں۔
ایکوائفر میں بارش کے پانی کے ریچارج کرنے کے فوائد کیا ہوں گے؟
1-
بڑے ڈیموں کی جھیلیں آہستہ آہستہ مٹی اور گاد سے بھر جاتے ہیں جب کہ زیرِ زمین ایکوئفر میں پانی فلٹر ہو کر جاتا ہے لہٰذا اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی کیپیسٹی ہمیشہ کے لئے ہیں ۔
2-
ایکوئفر سے پانی سورج کی گرمی سےبخارات بن کر نہیں اڑ سکتا جب کی ڈیموں کی جھیلوں میں بخارات بننے کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے جس سے پانی کے ذخیرے کا اچھا خاصا حصہ استعمال کیے بغیر غائب ہو جاتا ہے ۔
3-
کسی بھی قسم کی آبادی یا تنصیبات کو دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ ڈیموں یا نہروں کے منصوبوں میں کرنا پڑتا ہے۔
4-
جب اور جہاں ضرورت ہو یہ پانی نکالا جا سکتا ہے اس کے لئے لمبی چوڑی نہریں نہیں بنانا پڑتیں۔
پانی کی کوالٹی بھی جھیل میں کھڑے پانی سے بہتر ہوگی کیونکہ کھی کے پانی میں آلودگی شامل ہوتی رہتی ہے خصوصاً آبادیوں کے قریب کے علاقوں میں۔لاہور میں تین مہینے مون سون کا موسم ہوتا ہے جس کے دوران بارش کا وافر پانی اگر پانی چوس کنویں کے ذریعے زمین کو واپس لوٹا دیں تو ہمارا پانی کا مسئلہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے بلکہ ختم ہو سکتاہے۔ پانی چوس کنواں یا ریچارج ویل “الٹے فلٹر “ کے اصول پر کام کرتے ہوئے بارش کے پانی کو چوس کر زیرزمین پانی سے ملا دیتا ہے اور وہ بھی اسٹوریج ٹینک سے انتہائی کم لاگت پر۔ اس سے نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے بلکہ پانی کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی ہے۔
سادہ ترین الفاظ میں ہم بارش کا پانی پہلے ایک کولیکشن ٹینک میں لاتے ہیں تاکہ اس کے اندر مٹی بیٹھ جائے اور پانی نتھر کر کنوئیں کے اوپر موجود دوسرے ٹینک میں آجاتا ہے جس کی تہہ میں فلٹر میٹیرئیل ڈالا گیا ہوتا ہے جس میں سب سے اوپر بڑے پتھر، پھر چھوٹے پتھر، پھر بجری اور ریت وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔ فلٹر کے نیچے کچھ خاص تعداد میں مناسب قطر کے کے پائپ ہوتے ہیں جو پانی کو زیرزمین پہنچاتے ہیں۔یہ سادہ ترین ڈیزائن ہےجس میں ضرورت کے حساب سے ترمیم واضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں CDA, WWF, PCRWR , IWMI, WASA اور جماعتِ اسلامی پہلے ہی کچھ کام کررہے ہیں۔پانی چوس کنواں وہ کم سے کم کام ہے جو ہم بارش کے کورے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کر سکتے ہیں اور اسے زمیں میں واپس لوٹا کر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ تو کر سکتے ہیں۔کیا ہم سب اپنی زندگی میں اپنے حصے کا ایک ایک پانی چوس کنواں نہیں بنا سکتے ؟