دنیا بھر کی نظریں غزہ پر مرکوز ہیں ۔ غزہ کے انسانی بحران نے دنیا میں ہونے والی ہر تبدیلی کو دھندلادیا ہے اور ہر منظر اب پس منظر میں چلا گیا ہے ۔ کسی کو علم نہیں کہ یوکرین کے محاذ پر کیا ہورہا ہے اور اس کے روس، امریکا اور یورپ پر کیا نتائج مرتب ہورہے ہیں ۔ کسی کو علم نہیں کہ چین کا معاشی بحران کیا کروٹ لے رہا ہے ، کسی کو علم نہیں کہ بنگلا دیش کی مضبوط معیشت کیسے اچانک دھڑام سے نیچے آ گری ، کسی کو علم نہیں کہ یورپ کس حال میں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ہر منظر کو پس منظر میں تبدیل کرنے میں کچھ کمال مین اسٹریم میڈیا کا بھی ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ غزہ کچھ کم اہمیت کا حامل ہے ۔ غزہ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ واقعات کی لڑی کا ایک موتی ہے ۔ جس طرح معمے کے ایک ٹکڑے سے ہم اصل تصویر کو نہیں دیکھ سکتے ، بالکل اسی طرح صرف غزہ سے ہم اصل صورتحال کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اس کے علاوہ ابھی تک غزہ میں ہونے والے واقعات کے نتائج بھی کہیں پر زیر بحث نہیں ہیں ۔ صرف ایک کمنٹری جاری ہے کہ اتنے حملے ہوگئے اور اتنے شہید ہوگئے ۔ اگر سارے واقعات کو جوڑا جائے تو الگ ہی تصویر سامنے آتی ہے ۔ پہلے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر معمے کے ان تمام ٹکڑوں کو جوڑ کر تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
شروع امریکا سے کرتے ہیں ۔ دیکھنے میں امریکا ہر لحاظ سے ایک مستحکم ترین ملک ہے۔ کسی بھی فرد سے بات کریں وہ بتائے گا کہ وہاں پر قانون کی عملداری ہے ، معاشی لحاظ سے وہ ایک آئیڈیل ملک ہے جہاں پر ہر طرف ترقی کے مواقع ہی مواقع ہیں ۔ طاقت میں اس کی ہمسری ناممکن ہے ۔ وہ جہاں چاہتا ہے ، قہر بن کر ٹوٹتا ہے ۔ نہ کوئی اس کو روکنے والا ہے اور نہ ہی کسی میں اس کی اہلیت ہے ۔ دنیا کی دولت اس کے قدموں میں ڈھیر ہے ، طاقت اس کی باندی ہے ۔ یورپ اس کے زرخرید غلاموں کی طرح ہر وقت ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا ہے ۔ امریکا جہاں اشارہ کرتا ہے پورا یورپ اپنی سپاہ و دولت کے ساتھ وہاں موجود ہوتا ہے ۔ الغرض امریکا ایک ایسی طاقت کا نام ہے جسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اس پر فوج کشی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اسے توڑنے یا زیر کرنے کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے ؟
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ امریکا مسلسل حالت جنگ میں ہے ۔ جنگ کا مطلب ہے دولت کا لامتناہی استعمال ۔ اس کے جواب میں لوگ کہیں گے کہ ڈالر امریکا کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ وہ جتنے چاہے ڈالر چھاپے اور دنیا پر حکومت کرے ۔ نہیں جناب ، ڈالر چھاپنے کا اختیار امریکی حکومت کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اختیار ہے امریکا کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا کے پاس ۔ اب اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تو کیا ہوا ۔ یہ امریکا کا ہی ایک ادارہ ہے ۔ پھر واضح کروں کہ امریکا کا مرکزی بینک ہو یا پاکستان و برطانیہ سمیت کسی بھی ملک کا مرکزی بینک ، یہ سارے بینک نجی ملکیت میں ہیں ۔ اس پر میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بھی تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں اور متعدد آرٹیکل بھی اس موضوع پر تحریر کرچکا ہوں جو میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔
جنگی اخراجات پورا کرنے کے لیے امریکا بینکوں اور دیگر ممالک سے روزانہ 4.8 ارب ڈالر قرض لیتا ہے ۔ جی ہا ں روزانہ ۔ اس وقت امریکا پر قرض کی مالیت 34.8 ٹریلین ڈالر کے قریب ہے ۔ اس کا سالانہ سود ہی ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے جس کی ادائیگی کے لیے امریکی حکومت پاکستان کی طرح مزید قرض لیتی ہے ۔ کسی بھی ملک پر قرض اگر اس کی مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہو جائے تو تیکنیکی طور پر وہ ملک دیوالیہ قرار پاتا ہے ۔ امریکی حکومت پر قرض کی مجموعی مالیت اس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے 35 فیصد زیادہ ہو چکی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے ۔
امریکا کی بلدیات کی جانب سے دیوالیہ ہونے کی خبریں عام ہیں ۔ کمپنیوں اور افراد کی جانب سے دیوالیہ ہونے کی شرح میں گزشتہ برس کی نسبت 13 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ تو کیا امریکا معاشی طور پر اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں پر روس افغانستان کی جنگ کے اختتا م پر تھا اور اس میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ امریکا کی تمام تر معاشی خراب صورتحال کے بعد بھی اس کا جواب نفی میں ہے ۔ تو پھر امریکا کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ اس سوال کا جواب آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔