جنہیں لگ رہا ہے کہ ملک ریاض نے اصولوں پر مبنی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ 23 نومبر 2023 کو بحریہ ٹاؤن کیس میں کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ یہ فیصلہ کرنے والا بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔ اس فیصلے کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جو دراصل بحریہ ٹاؤن اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے سماعت کرنے والے بنچ کے درمیان ایک کمپرومائز تھا۔ اس فیصلے کی رو سے بحریہ ٹاؤن کو ضلع ملیر کے علاقے میں 16896 ایکڑ اراضی دی جانی تھی اور اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے سات سال کے دوران قسطوں میں 460 بلین روپے ادا کرنے تھے۔ یاد رہے کہ یہ کمپرومائز اس لئے ہوا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر اور نواحی علاقوں میں حکومتی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس کے خلاف متعدد کیس اور درخواستیں عدالتوں میں التوا کا شکار تھیں۔ تخمینے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی قبضہ کی گئی زمینوں کی قیمت 460 بلین روپے سے کہیں زیادہ تھی مگر بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اور نادیدہ وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی رضامندی سے 21 مارچ 2019 کو یہ حکم نامہ جاری کر دیا۔
14 دسمبر 2019 کو بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی کہ بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی 16896 ایکڑ اراضی میں 5149 ایکڑ کی کمی ہے سو بحریہ ٹاؤن نے طے شدہ رقم کی اقساط کی ادائیگی کو روک دیا۔ باہمی ملی بھگت کو ملاحظہ کرنا ہو تو نوٹ کریں کہ اس درخواست کو یکے بعد دیگرے چیف جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلسل التوا میں رکھا گیا اور اس کی سماعت 18 اکتوبر 2023 کو اس وقت ممکن ہو سکی جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عہدہ سنبھال لیا۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ ایڈووکیٹ بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے طور پر سامنے آگئے۔
سماعت کے دوران عدالت میں سب سے پہلے یہ سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا واقعی بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی زمین کم ہے؟ شواہد و حقائق کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کی یہ بات بالکل جھوٹ اور لغو قرار پائی۔ سپریم کورٹ کے 8 نومبر 2023 کو جاری کردہ حکم کے مطابق ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اعلی انتظامی و تکنیکی افسران شامل تھے۔ اس کمیٹی نے سروے آف پاکستان کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کے قبضہ میں موجود زمینوں کا سائنٹفک سروے کیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس کل 19931.63 ایکڑ زمین موجود تھی جو 21 مارچ 2019 کے فیصلے میں متعین کردہ زمین سے 3035.63 ایکڑ زائد قرار پائی۔ اندازہ لگائیں کہ کم زمین دیئے جانے کو بنیاد بنا کر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں چار سال تک ایک درخواست دائر کئے رکھی جسے اس وقت کے چیف جسٹس صاحبان نے سماعت کے لئے مقرر نہ کر کے بحریہ ٹاؤن کو اقساط کی ادائگی روکنے کا بھرپور موقع دیا۔ درحقیقت بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائد اراضی پر اس دوران قبضہ کر لیا تھا۔
بحریہ ٹاؤن کے جھوٹے دعوے کی قلعی جب سپریم کورٹ میں سروے آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں کھل گئی تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ ایڈووکیٹ نے عدالت سے اس رپورٹ پر اعتراضات دائر کرنے کے لئے مزید مہلت طلب کی۔ اندازہ لگائیں کہ چار سال قبل دائر کی گئی درخواست میں بحریہ ٹاؤن نے زمین کم ہونے کا دعوٰی کیا اور چار سال کے یہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے تو اس کے وکیل کو مزید وقت حاصل کرنے کی فکر پڑ گئی۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ متعلقہ شعبہ میں ملک کے سب سے مؤقر تکنیکی ادارے نے سائنٹفک انداز میں یہ سروے بحریہ ٹاؤن کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا تھا۔ اس دوران بحریہ ٹاؤن کے ایک الاٹی نے عدالت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی کہ 2019 کے سپریم کورٹ کے ساتھ کمپرومائز کے نتیجے میں جو حکم نامہ جاری ہوا تھا اس سے قبل جمع کردہ ایک عدالتی دستاویز میں بحریہ ٹاؤن نے خود 16896 ایکڑ زمین پر قبضے اور اس کے ڈیویلپمنٹ پلان کو تسلیم کیا ہے۔ بعد ازاں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کیونکر زمین کم ہونے کا مدعا اٹھا سکتی ہے! عدالت نے مزید وضاحت کی کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے زمین کی قیمت تو اپنے الاٹیز سے وصول کرنا تھی اور کسی بھی جگہ بحریہ ٹاؤن نے یہ نہیں کہا کہ اس کے الاٹیز نے اپنے ادائگیاں روک دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے الاٹیز سے رقوم لے کر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ عدالت کے ساتھ باہمی رضامندی سے طے کردہ اقساط ادا کرنے سے منکر ہو گئی۔
زمین کے بارے میں بحریہ ٹاؤن کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کے بعد عدالت نے دوسرے اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کی کہ شیڈول کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے مختلف اقساط کی مد میں اب تک کتنی رقم جمع کروائی ہے؟ 2019 کے عدالتی فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 460 بلین روپے کی کل رقم 2.5 بلین روپے کی اڑتالیس ماہانہ اقساط میں ادا کرنا تھی اور اس ماہانہ قسط کا آغاز یکم ستمبر 2019 سے ہونا تھا۔ بقایا رقم چھتیس برابر ماہانہ اقساط کی صورت میں 4 فیصد سالانہ مارک اپ کے ساتھ ادا کرنا قرار پایا تھا جس کا آغاز یکم ستمبر 2023 سے ہونا تھا۔ یہ تمام اقساط بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے نیشنل بینک میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر قائم بینک اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھیں۔
عدالت نے جب ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ بحریہ ٹاؤن نے 2.5 بلین روپے کی ادائیگی آخری بار 31 اکتوبر 2019 کو کی تھی (یاد رہے کہ عدالت یہ ریکارڈ 2023 کے آخر میں چیک کر رہی تھی) اور اس کے بعد کچھ چھوٹی رقوم کی ادائیگی مختلف اوقات میں ہوئیں جو کل ملا کر 173849522 روپے بنتے تھے جو طے شدہ 2.5 بلین روپے کی ماہانہ قسط سے بھی کم بنتے تھے۔ اس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے عدالتی حکم نامے کی مسلسل خلاف ورزی کی اور کوئی قسط ادا نہیں کی۔ اس سارے عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا بھرپور تعاون بحریہ ٹاؤن کو حاصل رہا۔ سپریم کورٹ نے تخمینہ لگایا کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق نومبر 2023 تک بحریہ ٹاؤن کو 166.25 بلین روپے ادا کرنے تھے (مارک اپ کو چھوڑ کر) مگر اس نے صرف 24 بلین روپے سے کچھ زائد رقم ادا کی۔ عدالتی حکم میں یہ واضح نہیں ہے کہ کل ادا شدہ رقم 24 بلین تک کیسے پہنچی کیونکہ جن رقوم کی ادائیگی کا فیصلے میں ذکر ملتا ہے وہ کم بنتی ہیں۔ عدالت نے اس صورتحال کو بحریہ ٹاؤن کا ڈیفالٹ ڈیکلئیر کرتے ہوئے یکمشت پوری رقم کو 2019 کے حکم نامے کے مطابق قابل ادائیگی قرار دیا۔
نیشنل بینک میں جو اکاؤنٹ رجسٹرار سپریم کے نام پر تھا اور اس میں بحریہ ٹاؤن نے اقساط جمع کروانی تھیں اس اکاؤنٹ کے حسابات کی تفصیل سے وہ بات بھی سامنے آگئی جس کا تذکرہ ملکی سیاست میں کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہ وہی ایشو ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ملک ریاض اب اپنی انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بینک کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق دس غیر ملکی اکاؤنٹس سے بھی رقوم رجسٹرار سپریم کورٹ کے مذکورہ اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی تھیں۔ 136 ملین برطانوی پاؤنڈز اور 44 ملین امریکی ڈالرز جو اس وقت کے حساب سے تقریبا 35 بلین پاکستان روپے بنتے تھے، کی ادائگی غیر ملکی اکاؤنٹس سے کی گئی۔ گویا کہ بحریہ ٹاؤن نے جو 460 بلین روپے کی جو رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھی اس میں سے 35 بلین روپے بیرون ملک مختلف اکاؤنٹس سے وصول ہوئے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک ریاض کی فیملی کے مختلف ممبران کے اکاؤنٹس سے یہ رقوم منتقل کی گئیں تھیں۔ سپریم کورٹ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر غیر ملکی اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی ایک نامناسب بات تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ وہ پیسہ ہے جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے Proceeds of Crime Act 2002 کے تحت حاصل کیے گئے Account Freezing Order کی بنیاد پر منجمد کیا تھا اور جسے ریاض فیملی نے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ سے نکال کر واپس پاکستان لانا تھا۔
عدالت نے قرار دیا کہ بدقسمتی سے اس معاملے میں سپریم کورٹ کو غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا۔ یہ پیسہ جو غلط طریقے سے ملک ریاض فیملی پاکستان سے نکال کر لے گئی تھی اسے "جرم کی پونچی” قرار دیتے ہوئے برطانوی کرائم ایجنسی نے ایک معاہدے کے تحت واپس پاکستان لے جانے کو کہا۔ ظاہر یہ کہ اس جرم کا ایک بڑا حصہ یعنی جس طریقے سے یہ رقم پاکستان میں جمع کی گئی، اس پر ٹیکس وغیرہ کی عدم ادائیگی اور اس کی مشکوک و غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے باہر منتقلی وغیرہ، یہ سب کچھ تو پاکستان میں ہوا تھا۔ برطانیہ نے اس "گندے پیسے” کو اپنے سسٹم کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس کو واپس پاکستان لے جائیں۔ اس سارے معاملے میں اس وقت کے حکومتی مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر بھی شامل تھے کیونکہ وہ حکومت پاکستان کے قائم کردہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی طرف سے برطانوی حکومت کے ساتھ اس سارے معاملے کو ڈیل کر رہے تھے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ یہ پیسہ اب پاکستان واپس آئے گا تو اس وقت کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس رقم کو بیرون ملک لے جانے وغیرہ کے بارے میں تحقیقات کرنے کے بجائے ان کے معاون وشریک کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ شہزاد اکبر نے اس وقت کی کابینہ کے سامنے ایک بند لفافے کو معاہدہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ سے منظوری حاصل کی کہ یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جائے۔ گویا کہ اس پیسے کو حکومت پاکستان کا پیسہ سمجھنے کے بجائے ملک ریاض فیملی کا حق مان لیا گیا اور انہیں اسے سپریم کورٹ میں قابل ادا رقم میں ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔
سپریم کورٹ نے اس بارے میں جو لکھا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ عدالت نے لکھا کہ:
"Apparently, these monies were used to offset Bahria Town’s stated liability, bringing to mind the idiom – robbing Peter to pay Paul۔”
یعنی جو بحریہ ٹاؤن کی ریاست کی طرف 460 بلین روپے ادا کرنے کی ذمہ داری تھی اس کو پورا کرنے کے لئے اس رقم کو استعمال کیا گیا حالانکہ یہ رقم حکومت پاکستان کا حق تھی۔ گویا کہ انگریزی محاورے کے مصداق پیٹر کو لوٹ کر پال کو ادائیگی کی گئی