عرصہ ہوا طلعت حسین صاحب سے فون پر بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ اتوار کی سہ پہر لیکن ان کی رحلت کی خبر ملی تو یادوں کا انبار جمع ہونا شروع ہوگیا۔ ان سے ملاقات سے کئی برس قبل تعارف ان کی ذات سے نہیں بلکہ آواز سے ہوا تھا۔ آٹھویں جماعت پہنچ جانے کے بعد اتوار کے دن دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کی اجازت مل چکی تھی۔ جو بھی فلم دیکھنے جاتے وہاں سب سے پہلے ’’پاکستان کا تصویری خبرنامہ‘‘ دکھایا جاتا۔ یہ پاکستان ٹی وی کیلئے متعارف کروائے ’’خبرنامے‘‘ جیسی ایک شے تھی۔ مقصد اس کا عوام کو یہ باور کروانا تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی قیادت میں پاکستان مسلسل اور ہمہ جہت ’’ترقی‘‘ کررہا ہے۔ عوام کو سہانے خواب دکھانے کی یہ کاوش طلعت حسین کی آواز میں سنائی جاتی اور اس آواز کی کشش ناظرین کو گرفت میں لے کر پراپیگنڈہ کے مقصد سے بنائی تصویروں کو بھی غور سے دیکھنے کو مجبور کردیتی۔ ان سے پہلے پاک- بھارت کی 1965ء کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان سے سنائی خبروں کی بدولت شکیل احمد کی پاٹ دار آواز ہی اثر پذیری کی حتمی مثال شمار ہوتی رہی تھی۔
شکیل صاحب کی آواز ڈرامائی اور درباری رعب داب کی حامل تھی۔ طلعت صاحب اس کے برعکس اپنے سامعین کی توجہ عام انسانوں کی طرح گفتگو کرتے ہوئے اپنے موضوع کی جانب کھینچ لیتے تھے۔ پاکستان کا تصویری خبر نامہ کئی برسوں تک اپنی شکل دکھائے بغیر سناتے ہوئے بالآخر وہ ٹی وی ڈراموں میں نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ ان کی اداکاری برجستہ دکھنے کے باوجود کچھ ’’استادی‘‘ کی خبردیتی۔ ٹی وی ڈراموں میں وہ بہت سنجیدہ اور عام انسانوں سے ذراہٹ کرہی نہیں بلکہ اخلاقی اقدار وغیرہ کے حوالوں سے بلند مقام پر کھڑے محسوس ہوتے۔ بطور ناظر میں بھی ان کے دبدبے کی زد میں آگیا۔
وقت تیزی سے گزرگیا تو 1980ء کی دہائی شروع ہوگئی۔ جنرل ضیاء کا دور تھا۔ جنوری 1979ء میں ایک ’’تخریبی‘‘خبر لکھنے کی وجہ سے معتوب شمار ہورہا تھا۔ کوئی اخبار اس کی وجہ سے نوکری دینے کو آمادہ نہیں تھا۔ کئی مہینے بے روزگاری میں گزارنے کی وجہ سے گمنامی نصیب ہوئی تو خاموشی سے پاکستان ٹیلی وڑن کیلئے ڈرامے لکھنا شروع کردئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستانی تہذیب کو ’’اسلامی‘‘ بنانے پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو ’’گمراہی‘‘ سے محفوظ رکھنا بھی ڈرامہ نگاروں کا فرض بنادیا گیا۔ اس دور میں ’’عشق محبت‘‘ جیسے ’’فضول‘‘ خیالات کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے ایک ڈرامائی سلسلے کا آغاز کیا۔ نام تھا اس کا ’’گھروندے‘‘۔
ہر ہفتے اس عنوان سے ایک نیا ڈرامہ تیار ہوتا۔ اس کے آغاز ہی میں یہ بات واضح ہوجاتی کہ اس کے مرکزی کردار پہلے ہی سے شادی شدہ ہیں۔ مرکزی خیال یہ تھا کہ نظربظاہر ہنستے بستے گھرانوں کے میاں بیوی بھی اپنی شادی کے دوران بے تحاشہ مشکل مقامات سے گزرتے ہیں۔جنرل ضیاء کے سنسرزدہ دور میں یہ ڈرامائی سلسلہ ’’خاندانی زندگی‘‘ کی اہمیت اجاگر کرنے کی کاوش سمجھ کر برداشت کرلیا گیا اور میری دیہاڑیاں لگنا شروع ہوگئیں۔
اس ڈرامائی سلسلے کے آخری دنوں میں طلعت حسین مرحوم کسی سرکاری تقریب میں دو روز کے لئے اسلام آباد آئے۔ ان کی آمد کی خبر پاتے ہی ٹی وی والوں نے فرمائش کی کہ میں فوراََ ایک ایسا ڈرامہ لکھوں جس میں طلعت حسین صاحب مرکزی کردار ادا کرنے کو آمادہ ہوجائیں۔ وہ تیار ہوگئے تو ڈرامہ کے نشر ہونے تک وہ راولپنڈی میں ٹی وی کے مہمان رہ سکتے ہیں۔ اتفاقاََ میں نے ایک ہی رات میں مطلوب ڈرامہ لکھ لیا۔ اسے طلعت حسین نے پڑھا تو مجھ سے ملنے کی فرمائش کی۔ میں ہوٹل میں ان کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد تقریباََ تین گھنٹے تک ان کے سوالات کے جواب دیتا رہا۔ ان کے اٹھائے تمامتر سوالات اس کردار کے بارے میں تھے جو میرے لکھے ڈرامے کا مرکزی کردار تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اگرچہ مجھے یہ احساس ہونا شروع ہوگیا کہ مذکورہ کردار سے طلعت حسین مجھ سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔ تین گھنٹوں کی اس ملاقات نے مجھے سمجھادیا کہ وہ ٹی وی سکرین پر رونما ہونے سے قبل کس نوعیت کی جاں گسل مشق سے گزرنے کے عادی ہیں۔
سرمد صہبائی ان دنوں بطور سزا لاہور ٹی وی سے ٹرانسفر کر کے راولپنڈی-اسلام آباد مرکز میں سکرپٹ ایڈیٹر بنادئے گئے تھے۔ ان کا لکھا ایک ڈرامہ تھا۔ ہم چند دوست چاہ رہے تھے کہ اسے لیاقت باغ کے ہال میں اس انداز میں پیش کیا جائے کہ راولپنڈی میں بھی لاہور کی طرح تھیٹر کی رونقیں متعارف ہوسکیں۔ کسی سرمایہ کار کے بغیر ہم سب نے اپنے ذاتی روابط کو اس ضمن میں متحرک کیا اور طلعت حسین صاحب کو اس امر پر قائل بھی کر لیا کہ وہ مذکورہ ڈرامے کا مرکزی کردار ادا کریں۔ تھیٹر کی ’’رونق‘‘ متعارف کروانے کے لئے لاہور سے ان دنوں الحمرا کے ڈراموں پر چھائی شیبا حسن کو مدعو کیا جنہیں ٹی وی ناظرین کی اکثریت منو بھائی کی ’’چاندی‘‘کے طورپر جانتی ہے۔
شیبا حسن برجستہ ’’جگت‘‘ لگائے بغیر سٹیج پر ’’رونق‘‘ لگاہی نہیں سکتی تھیں۔ طلعت حسین ان کے برعکس لکھے ہوئے سکرپٹ سے ایک انچ بھی دائیں بائیں ہونا مکروہ شمار کرتے تھے۔ ’’بالآخر سنجیدہ تھیٹر‘‘ کی جانب مگر انہیں سکرپٹ سے ہٹ کر لگائی جگت برداشت کرنے کو ’’پہلا قدم‘‘ بتا کر تیار کر لیا گیا۔ جس عجز و انکساری سے لوگوں کو ہمیشہ اپنی شہرت اور بارعب شخصیت سے فاصلے پر رکھتے طلعت حسین ’’تھیٹر کے مستقبل کی خاطر‘‘ اپنے اصول قربان کرنے کو تیار ہوئے وہ ہم سب دوستوں کے لئے ناقابل یقین تھا۔ بدقسمتی مگر یہ رہی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ بھی راولپنڈی میں سنجیدہ تھیٹر کی روایت متعارف کروانے میں قطعاََ ناکام رہی۔
طلعت صاحب کے ساتھ اس ڈرامے کی تیاری اور بعدازاں دو ہفتوں تک پھیلی پرفارمنس کے دوران ان کے ساتھ کئی گھنٹوں تک بیٹھا رہتا تھا۔ ان ملاقاتوں کی بدولت علم ہوا کہ وہ ایک انتہائی پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ والد کشمیری نڑاد مگر پٹیالہ ریاست کے تھے۔ سرکاری ملازم ہوئے تو دلی آن بسے جہاں ان کی شادی میسور سے آئے ایک اور پڑھے لکھے خاندان کی شائستہ بیگم سے ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد طلعت حسین کے والد محکمہ دفاع میں کام کرنے کراچی آگئے۔ والدہ وہاں ریڈیو پاکستان کی انا?نسر ہوگئیں۔ ان کے والدین اپنے بے تحاشہ ذہین بیٹے کو سرکاری افسر دیکھنا چاہتے تھے۔ طلعت صاحب کا دل مگر پہلے موسیقی اور بالآخر صداکاری اور اداکاری اپنانے کو مچل گیا۔ اپنی ضد نبھانے میں وہ کامیاب رہے۔ محض شوق پر انحصار نہیں کیا۔ ادا کاری کی باقاعدہ تربیت کیلئے لندن گئے اور وہاں کے ایک مشہور سکول میں اداکاری سیکھنے کی تعلیم مکمل کرنے کیلئے بی بی سی پرجزوقتی آواز لگانے کے علاوہ کبھی کبھار ایک ریستوران میں ویٹری کا کام کرنے کو بھی مجبور ہوجاتے۔ شوق کی ایسی لگن شاذہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہر حوالے سے کامل اداکار ہونے کے باوجود طلعت حسین مرحوم اردو اور عالمی ادب کے انتہائی سنجیدہ قاری بھی تھے۔ ان سے آخری ملاقات (اپنی طوالت کے حوالے سے )دودہائیاں قبل لندن میں ہوئی تھی۔ میں اور وہ دوپہر سے رات تک ایک دوست کے فراہم کردہ کمرے میں تنہا بیٹھے رہے۔ اس دوران انہوں نے بہت چائو سے مجھے اردو کے مشہور ادیب اور محقق مولانا محمد حسین آزاد کی زندگی کی داستان سنائی۔ ان ہی کی بدولت دریافت یہ بھی ہوا کہ وہ عمر کے آخری حصے میں دماغی توازن کھوبیٹھے تھے۔ طلعت حسین مولانا آزاد کی دیوانگی ڈرامے کے ذریعے اجاگرکرنا چاہتے تھے۔ مجھے اْکساتے رہے کہ میں ان کے ساتھ مل کر ان کی دیوانگی کو پیش کرنے والا ڈرامہ لکھوں۔ میں انہیں مسحور ہواسنتا رہا۔ ڈرامہ تیار کرنے کا مگر جھوٹا وعدہ بھی نہیں کیا۔ زندگی صحافت کی نذر کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اب اس کے بارے میں پچھتارہا ہوں۔