الحمدللہ تھر کینال کی فیزیبیلٹی اسٹڈی بھی مکمل ہوگئی ہے۔ یہ نہر رینی کینال کی دُم سے نکلے گی جو گُدو بیراج سے آنے والا سیلابی پانی تھر کینال میں ڈالے گی۔ اس مقصد کے لئے رینی کینال کے آخر میں کھینجو نامی گاؤں کے پاس ایک خارجی گیٹ واپڈا نے رینی کینال کی تعمیر کے وقت ہی بنا دیا تھا جوکہ 5000 کیوسک پانی تھر کینال میں چھوڑے گا۔منصوبے کے مطابق 480 کلومیٹر لمبی نہر صحرائے تھر کے وسط سے گزرتی ہوئی انڈیا پاکستان کی سرحد کے متوازی مٹھی تک جائے گی۔ یہ نہر گھوٹکی۔سکھر۔خیرپور۔سانگھڑ۔میرپور خاص اور مٹھی اضلاع کے نہر کے قرب و جوار میں واقع ڈھائی لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی کو سیراب کرے گی , انسانوں اور جانوروں کو پینے کا پانی فراہم کرے گی اور پرانے ہاکڑا دریا کے راستے کے 13 تالابوں کو بھی بھر دیا کرے گی۔ماضی میں پرانے ہاکڑا دریا میں گدو کے علاقے سے دریائے سندھ کے سیلابی پانی ، جنہیں گھوٹکی سیلاب کہا جاتا تھا ، سےمٹھی کے علاقے تک بہت سے چھوٹے چھوٹے تالاب اور جوہڑ بن جاتے تھے جس سے صحرائی حیات سکھ کا سانس لیتی تھی۔
گدو بیراج کے بننے کے بعد دریائے سندھ کے اطراف سیلابی بندوں کی سمندر تک سلسلہ وار تعمیر سے یہ سیلابی پانی آنا بھی بند ہو چکے اور انسان و حیوان زندگی کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔اس علاقے میں بارش کے علاوہ کوئی اور پانی کا ذریعہ نہیں ہے اور جولائی سے ستمبر کے درمیان ہونے والی بارشیں بھی بہت کم ہو چکیں جب کہ گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے۔تھر کے مغربی حصے کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کی ایک اور شاخ دریائے نارا کے نام سے چلتی تھی جوکہ سکھر کے شمال سے دریائے سنھ سے نکل کر براستہ ڈھورو پران ، کوری کریک تک جاتی تھی۔ یہ دریائے سندھ کو کچھ سے ملاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی انسانی بستیاں آباد تھیں۔ تاہم 1932-33 میں سکھر بیراج کی تعمیر کے دوران دریائے نارا کو بھی چینلائز کرکے اس کے بہاؤ کو نہری علاقوں کی زراعت تک محدود کردیا گیا۔1962 میں گدو بیراج کے بننے سے ہاکڑا کے نشیبی علاقوں کو جانے والا پانی بھی بند ہو گیا اور یوں یہ صحرائے تھر میں دریائے سندھ کے قدرتی سیلابی پانی آنا بالکل بند ہو گئے اور سندھ کے نہری علاقوں کی ترقی کے پس منظر میں صحرائے تھر ، نارا اور رینی کے علاقے تھوڑے بہت ملنے والے قدرتی پانی سے بھی محروم ہو گئے۔صحرائے تھر اور نارا کے علاقوں کو دوبارہ سے دریائے سندھ کا پانی پہنچانے کے منصوبے کا پہلا خاکہ 1993 میں ادارہ برائے سندھ بارانی علاقہ جات (SAZDA) نے پیش کیا تھا جس کے تحت گدو بیراج سے دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے مٹھی تک 500 کلومیٹر نہر بننی تھی ۔سنہ 2000 میں واپڈا نے رینی کینال کے ساتھ ساتھ تھر کینال پر بھی کام کی ابتدا کی۔ ابتدا میں رینی کینال 2002-14بنائی گئی اور اب دوسرے مرحلے میں رینی کینال کے اختتام سے تھر کینال بنانے کا منصوبہ ہے جس کی کی فزیبیلٹی بن چکی ہے۔منصوبے کے مطابق اس نہر میں ہر سال جون سے اکتوبر تک کے دوران 5000 کیوسک زائد سیلابی پانی گدو بیراج سے اس وقت موڑا جائے گا جب جب دریائے سندھ میں سوا لاکھ سے دولاکھ تک کے سیلابی ریلے چل رہے ہوں گے۔ تھر کینال میں چلنے والا پانی رینی، ناڑا اور صحرائے تھر کے بارانی علاقوں کے نہ صرف ڈھائی لاکھلاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے کو سیراب کرے گا بلکہ دولاکھ سے زیادہ افراد کو پینے کا پانی ملے گا اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی پانی پئیں گے۔