پانی کے لئے ترسی ہوئی انسانیت کے لئے امریکی سائنسدانوں نے سطح زمین سے 700 کلومیٹر نیچے پانی کا ایک دیومالائی سمندر دریافت کرلیا ہے۔ اس ایکوائفر کے اندر سطح زمین پر پائے جانے والے تمام سمندروں کے پانی سے تین گنا زیادہ پانی موجود ہے۔ یہ دریافت امریکہ کی ریاست اِلیانز کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے زمینی پانی کی ابتدا کو سلجھانے کی جستجو میں کر ڈالی جس پر ابھی تک سائنسدان خود بھی انگشتِ بدندان ہیں۔
یہ دیومالائی زیرِ زمین سمندر ایک نیلے رنگ کی چٹان کے اندر بند ہے جسے “رِنگ وُوڈائٹ” کہتے ہیں اور اتنا بڑا ہے کہ اگر یہ سارا پانی زمین پر نکل کر پھیلنا شروع ہو جائے تو زمین پر خشکی کے طور پر صرف چند پہاڑی چوٹیاں ہی نظر آئیں گی۔ آج کے دور کی جدید دُنیا کے سارے شہر غرق ہوجائیں گے۔
یہ دریافت پانی کے سائیکل کے حوالے سے ہمارے بہت سے نظریات تبدیل کرنے جارہی ہے۔ ابھی تک زمین پر پانی کی آمد / موجودگی کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ یہ دُمدار ستاروں کی وجہ سے ہے تاہم تازہ دریافت نے اس نظریے کو تڑاخ سے توڑ دیا ہے اور اب یہ نظریہ جڑ پکڑ رہا ہے کہ زمین پر پانی اس زیرِ زمین نیلی چٹان سے پانی کے رِسنے رہنے سے آیا ہے اور سطح زمین پر سمندر بنے ہیں۔ یعنی پانی کے سائیکل کا نظریہ تبدیل ہونے والا ہے۔
یہ ریسرچ سائنسدانوں نے پورے امریکہ کے آر پار 2000 سے زیادہ زلزلہ چارٹس (seismographs) کی مدد سے مکمل کی جس کے دوران انہوں نے امریکہ میں آنے والے زلزلوں کے 500 چارٹس کو کھنگالا اور اب وہ اس ریسرچ کو پھیلا کر پوری دنیا کے ہزاروں زلزلہ چارٹس کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ زیرِزمین سمندر پوری دُنیا کے نیچے یکساں طور پر پھیلا ہوا ہے یا نہیں۔
پانی کے اتنے بڑے ایکوائفر کا اندازہ زلزلہ چارٹ کی لہروں کے اس پیٹرن سے لگایا گیا ہے کہ جب زلزلے کی لہریں پانی سے بھیگی نیلی چٹان سے گزرتی تھیں تو یہ زمین کی دیگر اندرونی چٹانوں کے مقابلے میں سست پڑ جاتی تھیں۔
اس ریسرچ کے روح رواں بابا سٹیون جیکوبسن ہیں جو اس ریسرچ کے ابتدائی نتائج پہلی دفعہ 2014 میں منظر عام پر لائے تھے اور تب سے اس پر تحقیق جاری ہے۔