نازیہ حسن 3 اپریل 1965 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، کم عمری میں شہرت پائی اورمحض 35 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
15 برس کی عمرمیں ہی شہرت نازیہ حسن کے قدم چومنے چلی آئی لیکن جب انہوں نے بالی وڈ فلم قربانی میں "آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے” جیسا منفرد گیت پیش کیا تو گویا پوری دنیا میں ان کی بات بن گئی۔
نازیہ حسن نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ مل کرپاکستانی موسیقی میں ایک نئی جہت متعارف کروائی، جہاں جہاں اردو پہنچ سکی وہاں وہاں نازیہ حسن کی گلوکاری نے اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔
اردو میں ان کے گیتوں اور نغموں میں ڈسکو دیوانے، بوم بوم، آنکھیں ملانے والے مشہور ہوئے جبکہ انگریزی زبان میں ڈریمردیوانے نے دھوم مچائی، دنیا بھرمیں ان کے ساڑھے چھ کروڑ ریکارڈزفروخت ہوئے۔ورسٹائل گلوکارہ نے پرائیڈ آف پرفارمنس، بیسٹ فی میل پلے بیک سنگر سمیت متعدد ایوارڈز اپنے نام کئے۔
جلد شہرت کی بلندیاں چھونے والی نازیہ حسن بہت جلد دنیا سے رخصت بھی ہوگئیں، وہ لنگ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئیں اور محض 35 برس کی عمر میں 13 اگست 2000 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئیں۔ نازیہ نے مشرقی اور مغربی موسیقی کے امتزاج سے ایسے گیت پیش کیے جو برسوں گذرجانے کے بعد بھی شائقین میں مقبول ہیں۔ 80 کی دہائی میں بھارتی فلم ’’قربانی‘‘ کے لیے گائے گیت’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘‘ نے نازیہ حسن پرشہرت کے دروازے کھول دیے جب کہ انہیں اس گیت کے لیے بھارت کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ فلم فیئر سے نوازا گیا اور وہ یہ ایوارڈ پانے والی پہلی پاکستانی بنیں۔ نازیہ حسن نے 1981 میں ’’ڈِسکو دیوانے‘‘ کے نام سے اپنے گیتوں کا ایک یادگار البم ریلیز کیا۔ اس کے بعد 1984 میں ’’بُوم بُوم‘‘ اور ’’ینگ ترنگ‘‘، 1987 میں ’’ہاٹ لائن‘‘ اور1992 میں ’’کیمرا کیمرا‘‘ کے نام سے البم ریلیز کیے۔ نازیہ حسن ایک فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست بھی تھیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی سے ہونے والی ساری آمدنی کراچی کی پسماندہ بستیوں میں بسنے والے بچوں، محروم نوجوانوں اور غریب خواتین کی بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی تھیں وہ نیویارک میں سیاسی تجزیہ کار کے طور پر بھی اقوامِ متحدہ سے بھی منسلک رہیں اور 1991 میں اُنہیں پاکستان کے لیے ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا۔