ہمارے بچپن میں ہمارے دو عشق تھے۔۔۔مشرقی پاکستان اور پی آئی اے۔۔۔۔دونوں میں ایک نسبت تھی۔۔۔کیونکہ ہم روزانہ یہ خواب دیکھتے تھے کہ ایک نا ایک دن ہم پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھ کر مشرقی پاکستان جائیں گے۔۔۔ان دنوں کیلے، پٹ سن، ناریل، چائے، چاول ، ساڑھیاں اور ڈھاکہ کی ململ مشرقی پاکستان سے آتی تھیں۔۔۔ساڑھیوں کی دکانیں تو لاہور کے انارکلی بازار میں تھیں۔۔۔مگر ڈھاکہ کی ململ کہیں دکھائی نا دی۔۔۔جس کے بارے میں سنا تھا۔ وہ اتنی مہین ہوتی ہے کہ پورا تھان ایک انگوٹھی سے گزارا جاسکتا ہے۔۔۔شاید وہ نایاب اور بہت مہنگی ہو۔۔۔اس لیے عام دکانوں پر موجود نہیں تھی۔۔گرمی کی راتوں میں جب ہم اپنے گھر کی چھت پر سوتے تھے۔۔۔جب بھی کوئی ہوائی جہاز گزرتا۔۔تو اس کی آواز سن کر ہم اٹھ کر بیٹھ جاتے اور اسے دور تک دیکھتے رہتے یہاں تک کہ وہ ایک نقطہ بن کر بادلوں میں گم ہوجاتا۔۔۔اس زمانے میں لاہور کا ہوائی اڈہ انٹر نیشنل نہیں تھا اس لیے لاہور سے صرف پی آئی اے کی اندرون ملک پروازیں ہی چلتی تھیں۔۔۔انٹر نیشنل پروازیں صرف کراچی سے ہوتی تھیں۔۔۔اور اسلام آباد کا ہوائی اڈہ ابھی بنا نہیں تھا۔۔۔لاہور سے مسافروں کو ہوائی اڈے تک لے جانے کے لیے۔۔ایمبیسیڈر ہوٹل کے باہر سے ایک شٹل سروس تھی۔۔جو مسافروں کوئی ہوائی اڈے تک لانے اور لےجانے کے لیے چلائی جاتی تھیں۔۔۔
لاہور ہوائی اڈے کی عمارت بہت مختصر تھی۔۔جو لاہور کینٹ میں واقع تھی۔۔۔مسافر ہوائی جہاز تک جاتے اور اترتے دکھائی دیتے تھے۔۔کئی لوگ جہاز اڑتا دیکھنے کے لیے ہوائی اڈے پر جاتے اور حد بندی کی دیوار جو شاید دو ڈھائی فٹ اونچی تھی کے پاس کھڑے ہو کر جہاز کو دیکھ سکتے تھے۔۔ مسافر بھی جہاز کی آخری سیڑھی پر چڑھ کر ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ سکتا تھا۔۔۔
پی ائی اے کی بسیں جہاز کے عملے کو بھی لے کر آتی جاتی تھیں ۔۔۔ لوگ رک کر فضائی میزبانوں کو ایسے رشک سے دیکھتے جیسے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہوںپی آئی اے کی فضائی میزبانیں فلمی ہیروئنز کی طرح سب کی پسندیدہ تھیں اور ان کے بڑے بڑے پوسٹر بھی لگے ہوتے تھے۔۔۔ان کے منفرد لباس کو بھی فیشن کا درجہ ملتا۔۔۔پہلی فضائی میزبان سفید شلوار دوپٹہ کے ساتھ ہرے رنگ کی قمیص پہنتی تھیں۔۔۔1964 میں قاہرہ میں پی آئی اے کے ایک جہاز کو حادثہ پیش آیا۔۔جس میں ایک نہایت خوبصورت فضائی میزبان مومی گل بھی شہید ہوئی۔۔سارے پاکستان میں اس حادثے کا سوگ منایا گیا۔۔۔میں نے کئی خواتین کو مومی گل کے لیے روتے دیکھا۔۔۔جیسے وہ فضائی میزبان نہیں ان کے گھرانوں کی فرد تھیجب فضائی میزبانوں کا لباس تبدیل ہوا اور وہ ایک بند چاک کی قمیض کے ساتھ بیل باٹم کے ساتھ دکھائی دیں۔۔۔تو وہ لباس اس زمانے کا فیشن بن گیا۔۔۔میں نے اپنا پہلا فضائی سفر پی آئی اے کے ذریعے ہی کیا ۔۔۔جو لاہور سے اسلام آباد تک کا تھا۔اس کے بعد بہت سی فضائی کمپنیوں کے طیاروں پر سفر کیا۔۔۔لفتھانسا۔۔تھائی ائرلائن، ترکش ائر لائن، ایمریٹس، گلف ائر ، قطر ائر لائن ، نارویجن ائر، برٹش ائر ویز، سعودی ائر لائن، جال ائر لائن ، رائن ائر لائن۔۔۔اکثر کی سروسز یقینا پی آئی اے سے بہتر اور آرامدہ تھیں لیکن پی آئی اے جیسی اپنائیت کسی میں نہیں تھی۔۔۔
پہلے عمرے کی ادائیگی کا سفر بھی بھی امی اور بیٹے کے ساتھ لاہور سے جدہ تک پی آئی اے سے کیا۔۔۔اس عمرہ فلائٹ میں خاص طور پر یہ خیال رکھا گیا تھا کہ عملے میں کوئی خاتون موجود نا ہو۔۔۔اور تمام فضائی میزبان با ریش ہوں۔۔۔۔رمضان کا مہینہ تھا۔۔۔سب مسافر احرام پہنے اپنی اپنی عبادات و اذکار میں مصروف تھے۔۔
اتنے میں ایک نوجوان فضائی میزبان دکھائی دیا۔۔جس کی ڈیوٹی شاید غلطی سے اس پرواز پر لگ گئی تھی۔۔وہ نا صرف بہت خوش شکل تھا بلکہ اس کی مشابہت ایک فلمی ہیرو پریانشو سے تھی۔۔جس کی فلم "تیرے بن” ان دنوں ریلیز ہوئی تھی۔
میرے بیٹے نے ٹی وی لگانا چاہا تو وہ بھی بند تھے کیونکہ عمرہ کی پرواز کے لیے ٹی وی دیکھنے کی سہولت بھی بند تھی۔
پی آئی اے سے ایک اور سفر یاد رہا ۔۔۔۔میں جن دنوں سوڈان میں یو این مشن پر تھی۔ تو ہر مہینے چھٹی پر یورپ جاتی تھی۔۔یہ سفر عام طور پر ترکش ائر لاینز سے ہوتے تھے۔۔ایکبار چھٹی پر پاکستان آئی تو پی آئی اے کے ذریعے ڈنمارک گئی۔۔۔ڈنمارک ائر پورٹ پر اترتے ہی احساس ہوا کہ ائر پورٹ پر خلاف معمول بہت زیادہ پولیس موجود ہے جن کے ساتھ بڑے بڑے صحت مند کتے بھی ہیں۔۔میں کوپن ہیگن کئی بار آچکی تھی مگر ایسی صورت حال کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔میں نے سوچا شاید کوئی دہشت گردی کا خطرہ ہے یا کوئی غیر معمولی واقع ہوا ہے۔۔۔بہرحال سامان اٹھانے سے ائر پورٹ کی عمارت سے باہر نکلنے تک ہر جگہ پولیس اور کتے کھڑے دکھائی دیے۔۔کئی دن بعد احساس ہوا کہ یہ غیر معمولی استقبال اس لیے تھا کیونکہ پی آئی اے کی پرواز نے لینڈ کیا تھا۔۔۔اور وہ ڈائرکٹ پاکستان سے آئی تھی۔انٹر نیشنل سفر کرنے والوں کے لیے پی آئی اے کی یہ سہولت تھی کہ وقت کا ضیاع نہیں ہوتا تھا۔۔۔مطلوبہ منزل تک ڈائرکٹ پہنچا جاسکتا تھا۔۔جبکہ ہر ائر لائن پہلے آپ کو اپنے ملک لے کر جاتی ہے۔۔وہاں بعض اوقات کئی کئی گھنٹے ائر پورٹ پر گزارنے کے بعد اگلے جہاز کے ذریعے اگلا سفر کرنا پڑتا ہے۔2013 میں میری امی نے ناروے کے شہر اوسلو کے ہسپتال میں اپنا زندگی کا سفر مکمل کیا تو ان کی خواہش کے مطابق ان کو لاہور لانا تھا۔۔۔ہسپتال سے ان کو نہلانے لکڑی کے تابوت سے ائر پورٹ تک پہنچانے کا سارا انتظام” الخدمت ” نے کیا۔۔جس کے لیے انھوں نے بھاری معاوضہ لیا کیونکہ امی ناروے کی شہری نہیں تھیں۔۔” الخدمت” کی یہ سروس ناروے میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے تھی۔۔۔
میں نے امی کے ساتھ لاہور آنا تھا۔۔۔میں نے اپنی ٹکٹ خریدی۔۔۔تو پتہ چلا پی آئی اے کی یہ سروس اپنے ان شہریوں کے لیے مفت ہے جو اپنے آخری سفر پر اپنے وطن جارہے ہوتے ہیں۔۔یعنی امی پی آئی اے کی وہ مسافر تھیں جو بغیر ٹکٹ کے سفر کر رہی تھیں۔میرا وہ سارا سفر روتے گزرا۔۔میں اکیلی تھی۔۔اور امی لکڑی کے تابوت میں جہاز کے کارگو والے حصہ میں تھیں۔۔۔یہ میرا پی آئی اے سے آخری سفر تھا۔آج پی آئی اے کی نیلامی کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں ۔۔نیا وزیر خزانہ جو نا پاکستانی شہری ہے نا وہ پاکستانی لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھتا ہے صرف یہ سمجھتا ہے کہ پی آئی اے ایک ناکام ادارہ ہے جو خسارے میں جارہا ہے اس لیے اسے بیچنا ضروری ہو چکا ہے۔۔۔کوئی بتلائے کہ دنیا کی کامیاب ترین فضائی ائر لائن جس نے ۔۔قطر اور ایمرٹس جیسی کامیاب ائر لائنز کی تربیت کی کس طرح تباہ ہوئی۔؟ اس کی انٹرنیشنل پروازیں کیوں بند ہوئیں ؟ اور اس کا قابل ناز عملہ کینیڈا جا کر کیوں غائب ہونے لگا۔۔۔؟اپنے ملک ، قوم اور اداروں کی تنزلی کا ذمہ دار کون ہے ؟بہر حال پی آئی اے کی نیلامی۔۔ میری نسل کے لوگوں کے لیے سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ ہوگا۔