’مہاجر سیاست‘ کے جو نقصانات ان 76سال میں خود اردو بولنے والوں کو ہوئے، چاہے وہ سیاست کراچی صوبہ کے نام پر ہوئی، مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ہوئی یا پھر مہاجروں یا اردو بولنے والوں کی اپنی جماعت بنا کر ہوئی اس کا تو شاید اب ازالہ بھی ممکن نہیں اگر یقین نہیں تو ٹھنڈے مزاج سے صرف ان چالیس سال کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوائے معذرت کے ساتھ ’قبرستان‘ ہی آباد ہوئے، نہ نوکریاں، نہ داخلے، تعلیم اور قلم جو اصل میں اردو بولنے والوں کا اثاثہ تھا۔ کچھ ’بڑوں‘ کی سیاست کی نذر ہو گیا کچھ اپنوں کی اور ہاتھ میں ہتھیار آ گیا جس نے صرف مقتولوں کی فہرست میں اضافہ کیا اور جس کا شکار ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق بھی ہوئے اور بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق سمیت ہزاروں کارکن ۔
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
ان ساری تلخ حقیقتوں کے باوجود ایم کیو ایم بحیثیت جماعت جب وجود میں آئی تو اس سیاسی رومانس میں لاکھوں نوجوان، خواتین، بزرگ جڑ گئے۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جب 1987ء کے بلدیاتی الیکشن اور پھر 1988ء کے عام انتخابات میں بے مثل سیاسی کامیابی ملی جس کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جاتا تو شاید آج واقعی متحدہ متحد ہوتی مگر اس ’طاقت‘ نے یا معذرت کے ساتھ طاقت کے نشے نے نشیمن اجاڑ دیئے۔
1988ء میں پی پی پی، ایم کیو ایم معاہدہ جو غالباً 50 سے زائد نکات پر مشتمل تھا ایک مثبت کوشش تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کی اندر سے مخالفت پی پی پی کے اردو بولنے والوں کی طرف سے زیادہ تھی جنہوں نے 1987ء میں بھی اس وقت کی نوجوان قیادت کو بے نظیر بھٹو سے نہیں ملنے دیا ورنہ شاید اس وقت بلدیاتی الیکشن دونوں جماعتیں مل کر ،جماعت اسلامی کے خلاف لڑتیں۔ یہ معاہدہ سندھ کی دو اکائیوں کو جوڑنے کا معاہدہ تھا جس کی سب سے زیادہ تکلیف ان کو تھی جو دیہی اور شہری سندھ کی تقسیم کر کے اپنی سیاست آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ اور پھر یوں ہوا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ، صدر غلام اسحاق خان اور جناب نوازشریف نےجو IJI کے سربراہ تھے ایم کیو ایم سے ایک خفیہ معاہدہ کرلیا اور متحدہ نے پی پی پی سے معاہدہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف ’عدم اعتماد‘ تحریک میں ووٹ دیا۔ یہ اس بے اعتمادی کی ابتدا تھی جس نے یہاں کی سیاست کو مزید پراگندہ کیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کو دو ووٹ سے شکست ہوئی مگر چونکہ ’ریاست‘ اور اسکے اداروں کیلئے بی بی کی قبولیت نہیں تھی لہٰذا 4اگست 1990ء کو انہیں برطرف کر دیا گیا۔ یوں ایم کیو ایم پھر استعمال ہو گئی مگر کہانی ختم نہ ہوئی۔ جن کے کہنے پر میاں صاحب سے خفیہ معاہدہ کیا تھا انہوں نے ہی انکے خلاف آپریشن کیا مگر ایم کیو ایم کی قیادت نے تاریخ سے پھر بھی سبق نہ سیکھا۔ پی پی پی نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ایم کیو ایم کو ’سبق سکھانے‘ کا فیصلہ کیا اور پولیس آپریشن کی آڑ میں ’ماورائے عدالت‘ قتل کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے وہ آپریشن اس وقت ختم ہوا جب خود وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اس کا شکار ہوئے۔ بعد میں یہ پالیسی حکومت کے زوال کا باعث بنی اور 1996ء میں انکے اپنے صدر فاروق لغاری نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ اس بار ایم کیو ایم جس پر اب نہ پی پی پی کو اعتماد تھا نہ مسلم لیگ (ن) کو مگر شریفوں نے ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت حکومت میں ان کو شریک کیا مگر 1997ء میں بننے والی حکومت کا پہلا وار پھر سندھ پرہوا۔ اس بار ممتاز سماجی شخصیت، سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو 1998ء میں شہید کر دیا گیا۔ اس کا الزام انتہائی جلد بازی میں ایم کیو ایم کے ایک لڑکے عامر اللہ پر لگادیا گیا اور سندھ میں گورنر راج لگ گیا۔ وہ لڑکا کئی سال بعد سپریم کورٹ سے بری ہوگیا اور آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ ان کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔
ایم کیو ایم کی پوری سیاست ان چار دہائیوں میں تضادات کا شکار رہی کبھی مصلحت کے ہاتھوں تو کبھی مفادات کے ہاتھوں۔ جن کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہونی چاہئے تھیں ان کے ہاتھوں میں غداری سے لے کر قتل تک کے مقدمات کی فائلیں ہیں بس تاریخ پہ تاریخ پڑتی رہتی ہے۔ ریاست نے 1992ء سے لے کر 2013ء تک شہری علاقوں میں کوئی چار بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مجموعی ہدف ایم کیو ایم رہی ۔ایم کیو ایم کے پاس سنبھلنے کا بہترین موقع 1999ء سے 2007ء تک اس وقت تھا جب جنرل پرویز مشرف کو ضرورت تھی کسی ایسی جماعت کی۔ 2002ء میں ایک ’خفیہ معاہدہ‘ کے تحت گورنر سندھ کے پاس ’شہری سندھ‘ کے مکمل انتظامی اختیارات آگئے تھے وزیراعلیٰ صرف اس پر دستخط کرتے تھے۔ مگر اس وقت بھی ایم کیو ایم نے نہ شہروں میں اچھے اسکول بنوائے نہ کالج البتہ کچھ پل کچھ انڈر پاس اور اس سب سے پارٹی کو بہتر سمت ملی ہی تھی کہ مشرف نے 12مئی 2007ء کو ایک بار پھر ان کو پرانی ڈگر پر ڈال دیا۔ کبھی اس کی تحقیقات غیرجانبدار کروالیں تو پتا چل جائے گا کہ اصل کردار کون کون تھے۔ اس واقعہ نے ایم کیو ایم کو ایک بار پھر 80 اور 90 کی دہائی میں دھکیل دیا۔
22اگست 2016ء ایم کیو ایم کیلئے ایسا ہی ثابت ہوا جیسا 9مئی 2023ء پاکستان تحریک انصاف کیلئے۔ آج 8سال بعد بھی وہی ایک مقدمہ پوری ایم کیو ایم کیلئے ’لندن سے پاکستان‘ تک کافی ہے کسی پر غیرعلانیہ پابندی ہے تو کوئی اداروں کے حکم کے تابع۔ 2018ء میں چار سیٹیں دی گئیں اورچھ سے آٹھ لے لی گئیں اور آج 17سیٹیں دے دی گئیں مگر خود ایم کیو ایم کے لاتعداد لوگوں کو یقین نہیں کہ یہ جیتی ہوئی سیٹیں ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی سینیٹ میں نہ چاہتے ہوئے بھی فروغ نسیم کو ٹکٹ مل جاتا ہے تو کبھی فیصل واوڈا کو۔ اس وقت تو فروغ بھائی کو یہ اپنا نہیں ماننے کو تیار تھے اب بھی سنا ہے پارٹی تقسیم ہے۔اب ایم کیو ایم کے دوست لندن سے پاکستان تک اور بہادرآباد سے لانڈھی تک خود ہی جائزہ لے لیں کہ یوم تاسیس منایا جائے یا ’چالیسواں‘۔ ناظم آباد اور لیاقت آباد سے جنم لینے والی متوسط طبقہ کی اس جماعت نے ان سالوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ ماسوائے رسوائی کے تو ضرور بتائیے گا۔ کراچی تو آج بھی منتظر ہے کہ کوئی تو اس کی ملکیت لے۔ سب اس کی زمینوں، پارکوں اور کھیلوں کے میدانوں کو اجاڑ گئے۔ اگر آج اس شہر کے مکین جو ہمیشہ سے کرکٹ کے شیدائی رہے ہیں PSL جیسے ٹورنامنٹ میں ’نیشنل اسٹیڈیم‘ کا رخ نہیں کر رہے تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ یہ شائقین کرکٹ کہاں لاپتہ ہو گئے۔ اتنی پابندیوں میں کون جائیگا۔ لوگ میچ دیکھنے، لطف اٹھانے اسٹیڈیم جانا چاہتے ہیں 164کا بیان ریکارڈ کرانے نہیں۔ سختیاں نرم کریں، ٹکٹوں کے نرخ کم کریں، روشنی کے شہر کو روشنی چاہئے اندھیرا نہیں۔