آج میں آپ کے ساتھ اپنے پسندیدہ رائٹرز میں سے ایک کا تعارف کروا رہی ہوں جنہوں نے تاریخ ہند پر میری سمجھ بوجھ میں اضافہ کیا اور تاریخ پاکستان کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے میں مدد دی۔
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد 24 فروری 1947 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی کچھ عرصہ راولپنڈی میں پڑھایا بھی اور لاہور کی گلیوں میں بچپن سے جوانی کا سفر طے کر کے 1973 میں بڑے بھائی کے پاس سویڈن چلے گئے جہاں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ زندگی بطور پروفیسر پڑھنے پڑھانے میں گزاری۔ کئی کتابیں لکھیں اور لوگوں کو محبت اور شانتی سے جینے کا درس دیا۔
1974 میں جن دنوں وہ سویڈن میں طالب علم تھے اور اپنا تھیسز لکھ رہے تھے ایک دن انہوں نے سوچا کہ پاکستان میں ہر کوئی اسلامی ریاست بنانے کی بات کرتا ہے آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کو سمجھتے ہوئے ایک اور سوال نے جنم لیا کہ پاکستان بنا کیوں تھا؟ اس کے پیچھے آئیڈیالوجی کیا تھی؟ اور اس کا ہماری سوسائٹی پر کیا اثر مرتب ہوا؟ وہ کہتے ہیں کہ دراصل تقسیم ہند تقسیمِ پنجاب ہے۔ تقسیم ہند میں تقریباً دس لاکھ لوگ قتل ہوئے جن میں سے آٹھ لاکھ ‘پنجابی’ ہندو، مسلم اور سکھ تھے۔ہندستان کی چار سو ملین آبادی میں سے پندرہ ملین لوگ جبری طور پر اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مگر پنجاب سے جس کی آبادی صرف 34 ملین تھی، 10 ملین لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر ایک بارڈر سے دوسرا بارڈر کراس کیا۔
پنجاب کی تقسیم پر اپنی تحقیق کو انہوں نے "پنجاب کا بٹوارہ” کے نام سے شائع کیا۔ تھیسز لکھنے کے دوران انہوں نے یہ بات جانی تھی کہ آپ کو اپنی تحقیق میں ایسے حوالے تلاش کر کے استعمال کرنے چاہئیں جو آپ کے مخالفین کے لیے بھی قابل قبول ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کی ہر سطر اپنا مستند حوالہ رکھتی ہے۔” پنجاب کا بٹوارہ” لکھنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے برٹش گورنمنٹ کے "ٹرانسفر آف پاورز” کے 12 والیم خریدے۔ پھر پنجاب گورنر کی 1936 سے 1947 تک کی خفیہ رپورٹس حاصل کیں۔ اس زمانے کے دو اہم اخبارات سے استفادہ کیا "ٹربیون” جو اب چندیگڑھ سے نکلتا ہے اور کانگریس کا حامی تھا، "پاکستان ٹائمز” جو کہ مسلم لیگ کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب 14 اگست تک کی معلومات تو ہاتھ لگ گئیں مگر 15 اگست کے بعد پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور دونوں جانب مختلف حکومتیں قائم ہو گئیں۔ پنجاب کے آخری گورنر نے 14 اگست کی خفیہ ریپورٹ میں لکھا تھا کہ 5 ہزار دو سو لوگ مارے جا چکے ہیں اور جب تک پاور ٹرانسفر ہو گی شاید دس ہزار لوگ مارے جائیں گے۔ مگر جب ہم بعد کے سورسز دیکھتے ہیں مثلاً SPGC کی ریپورٹ اور مختلف کتابوں اور تحقیقات میں قتل و غارت کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں مگر کوئی بھی تفصیل اور ترتیب سے نہیں بتاتا کہ 14 اگست کے بعد کیا ہوا؟
ڈاکٹر اشتیاق احمد کو اس بات کی تحقیق کے لیے تین برس کی گرانٹ ملی تھی لیکن اس تحقیق میں ان کے گیارہ برس لگ گئے۔ انہوں نے دونوں طرف کے پنجاب میں اپنے اسسٹنٹ ہائر کیے اور دوستوں کی رضاکارانہ مدد لی۔ یہ 2002 کی بات ہے جب بہت سے ایسے لوگ زندہ تھے جنہوں نے تقسیم اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے اور تسلی کے بعد ڈاکٹر صاحب کو بلایا جاتا اور وہ انٹرویو کر لیتے۔ یوں انہوں نے گیارہ برس میں دونوں جانب کے پنجاب اور یورپ میں مقیم 450 سے زائد بزرگوں کے انٹرویو کر کے جاننے کی کوشش کی کہ تقسیم کے وقت اور بعد میں آخر ہوا کیا تھا؟ کتاب میں 450 میں سے صرف 262 انٹرویوز کا حوالہ دیا گیا ہے جو زیادہ مستند تھے کیونکہ دونوں جانب کے پنجاب سے ایک ہی گاؤں کے لوگوں کو تلاش کیا گیا اور جن کے بیانات ایک دوسرے کی تصدیق کرتے تھے صرف وہی قابل اعتبار سمجھے گئے۔ جب انہوں نے تقسیم پر اپنی کتاب "پنجاب کا بٹوارہ مکمل کر لی تو ایک نیا سوال پیدا ہوا کہ تقسیم تو ہو گئی اور اس کے بعد ہندوستان میں کم از کم جمہوریت اور ترقی آئی، آئین، زبان، الیکشن وغیرہ جیسے مسائل حل کر لیے گئے مگر ہم یہ مسائل حل کیوں نہیں کر سکے؟
اس سوال کا جواب کھوجتے ہوئے انہوں نے جو تحقیق کی اس کا نچوڑ اپنی کتاب "پاکستان-ایک عسکری ریاست” میں پیش کیا۔ انہوں نے جانا کہ ہماری سوسائٹی پہ فوج کا جو بہت بڑا ہولڈ ہے اس نے پاکستان کو ایک قلعے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک اور سوال اٹھا اس سب کے پیچھے مرکزی کردار کون تھا؟
انہوں نے اپنی ریسرچ کا یہ نتیجہ نکالا کہ اس سب کے ذمہ دار محمد علی جناح تھے۔ انہوں نے اپنی اس تحقیقی کتاب کو "جناح-کامیابیاں ناکامیاں اور تاریخ میں کردار” کے نام سے شائع کروایا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بتایا گیا ہے کہ جناح میں کوئی غلطی تھی ہی نہیں ہر کام اس نے بالکل صحیح کیا۔ میں سمجھتا ہوں کے کوئی انسان بھی ہر وقت صحیح نہیں ہوتا لہٰذا جناح صاحب کی زندگی میں جو مختلف ادوار ہیں اور ان کے سیاسی ارتقاء کا میں نے مطالعہ کیا جو اس کتاب کی صورت میں سامنے آیا۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ سر کیا آپ کے خیال میں تقسیم نہیں ہونی چاہیئے تھی؟
ان کا جواب تھا ”جی ہاں! میرے خیال سے نا صرف تقسیم نہیں ہونی چاہیئے تھی بلکہ پنجاب کی تقسیم کو انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سانحات میں سے ایک خیال کیا جانا چاہیے۔ مارچ 1947 سے قتل و غارت کا آغاز ہوا، اگست میں تقسیم ہوئی اور تقسیم کے بعد دونوں جانب کی حکومتوں نے اَن وانٹڈ کمیونٹیز کو ہجرت پہ مجبور کیا۔ انٹرویوز دینے والے زیادہ تر بزرگوں کا کہنا تھا کہ وہ تقسیم سے پہلے امن اور محبت سے صدیوں سے ایک ہی گاؤں میں رہتے چلے آ رہے تھے۔ پاکستان میں تقسیم کو اچھا سمجھا جاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندو اور سکھ ہم پہ چھائے رہتے کیونکہ مالی اور عددی طور پر وہ ہم سے زیادہ ایڈوانس تھے۔ البتہ انڈیا میں ابتدا ہی سے تقسیم کو ٹریجڈی سمجھا گیا ہے جس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ملک کے دو ٹکڑے ہونا اور دوسرا صدیوں سے قائم محبت اور بھائی چارے کا خاتمہ۔ انتہا پسند ہندو سمجھتے ہیں جناح مسلمانوں کا نہیں ہمارا لیڈر تھا جس نے یہاں سے مسلمانوں کی شرح گھٹا دی۔ لیکن جو لوگ انسانیت پہ یقین رکھتے ہیں دونوں طرف ان کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک ہزار برس سے اکھٹے رہ رہے تھے تو اگلے ایک ہزار سال تک اکھٹے رہنا بھی کوئی مشکل بات نہیں تھی۔“
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پاکستان کے زوال اور بڑھتی شدت پسندی اور انڈیا کی تیزی سے جاری اقتصادی اور سائنسی ترقی سے متعلق خیالات کے اظہار کا کہا تو انہوں نے نہایت دلچسپ جواب دیا:
”جب آپ مذہب کے نام پر انسانوں کو منظم کر کے ان میں جنون پید کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے مذہب کو جتنا پرائیویٹ رکھا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ اگر اسے سیاست میں لا کر طاقت کے کھیل کا حصہ بنایا جاتا ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہوئے کہ خدا کو خوش کر رہے ہیں ظلم کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار دو قومی نظریہ ہے۔ آپ نے مذہب کے نام پر ملک توڑ دیا، سکھوں اور ہندوؤں کو نکال دیا مگر یہ آئیڈیالوجی نفرت کی تھی یعنی اگر آپ کے عقائد میرے عقائد سے مختلف ہیں تو آپ میرے دشمن ہیں۔ جب اکیلے مسلمان رہ گئے تو پتہ چلا کہ مسلمانوں میں بھی وہی اختلاف ہیں مثلاً شیعہ سنی جھگڑے یہاں تک کے ایک گروپ جنہیں قادیانی یا احمدی کہا جاتا ہے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کر دیا گیا۔ جو جھگڑے اپنی طرف سے سلجھا لیے گئے وہ تاحال موجود ہیں۔ ہندو سکھ چلے گئے کیا اب ہم نے بہت ترقی اور اطمینان حاصل کر لیا؟ نہ ہم تعلیمی طور پہ انڈیا کو ٹکر دے سکتے ہیں نہ ہی ملازمت، زراعت، صنعت کے اعتبار سے پاکستان کی کارکردگی انڈیا سے بہتر ہے۔ میں نے ان دنوں ایک سیمینار سے خطاب کے لیے مہمان کے طور پر انڈیا کے وزٹ پر آیا ہوا ہوں۔ یہاں میں نے دیکھا کہ اس طرف کے پنجاب کے ایک ایک بندے کے گھر میں پانچ پانچ اخبار آتے ہیں اور ہماری طرف پڑھے لکھے لوگوں کے گھروں میں بھی اخبار نظر نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان نے اپنی اقلیتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔ دو ملک بن گئے، دو بھائی بھی بعض اوقات ایک گھر میں نہیں رہتے، تقسیم ہو جاتی ہے۔ لیکن بھائی تو وہ رہتے ہی ہیں۔ ہمارا DNA، موسیقی، لوک ورثہ مشترک ہے۔ ایک ہندوستانی کے ساتھ آپ پورا دن بھی بنا بیزار ہوئے گفتگو کر سکتے ہیں مگر ایک عرب کے ساتھ سوائے نماز کے ہماری کوئی مماثلت نہیں۔ پاکستانی آج بھی ہندوستانی فلمیں دیکھتے ہیں، لتا کے گیت شادیوں پہ بجائے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے جو ہمیں قریب لا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم سیاست چھوڑ کر انڈیا سے معمول کے دوستانہ تعلقات استوار کریں تو یہ ہمارے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔“