جس وقت راوی پاکستان میں چین ہی چین لکھ رہاہے عین اُسی وقت اِنڈیا مقبوضہ کسمیر میں انتہائی سمجھداری سے پانی کے ہتھیار کا استعمال کرنے جا رہا ہے جس کے بعد کسمیرکم ازکم اگلے پچاس سو سالوں تک انڈیا کا مرکزِ توانائی بن جائے گا۔اس وقت پاکستان کی پانی سے بجلی بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 10,700 میگاواٹ ہے جب کہ انڈیا صرف مقبوضہ کسمیر کے پانیوں سے 20,000 میگاواٹ بجلی بنانے کے منصوبے بنائے بیٹھا ہے۔ ان منصوبوں پر عملی کام میں اس وقت تیزی آئی ہے جب آج سے پانچ سال قبل مقبوضہ کسمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس ایک ہندوستانی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔کسمیر میں ان منصوبوں سے توانائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بہت اسٹرٹیجک اہمیت بھی ہے۔انڈیا کہہ رہا ہے کہ یہ 20 ہزار میگاواٹ بجلی صرف اور صرف وادی کے استعمال کے لئے ہو گی تاکہ کسمیریوں کو مطمئن کیا جا سکے اور ساتھ ہی پاکستان کی طرف سے ان منصوبے کی ممکنہ مخالفت کو یہ رنگ دیا جا سکے کہ پاکستان کسمیر کی بھلائی روکنا چاہتا ہےلیکن کیا صرف وادی کی بجلی کی صنعتی اور گھریلو ضروریات پاکستان سے بھی زیادہ ہیں کہ وہاں 20 ہزار میگاواٹ بجلی کی کھپت ہو؟ اگر نہیں تو انڈیا بِنا کسی ضرورت کے توانائی کے یہ منصوبے دھڑا دھڑ کیوں تعمیر کئے جارہا ہے جن کی لاگت بھی بہت زیادہ ہے۔ یقیناً یہ منصوبے وادی کی بجائے پورے انڈیا کے لئے ہیں۔سندھ طاس منصوبے کے تحت انڈیا کسمیرسے پاکستان آنے والے دریاؤں پر توانائی کے منصوبے تعمیر تو کرسکتا ہے لیکن بِنا ضرورت نہیں کیونکہ ان منصوبوں سے دریا کی صحت متاثر ہوتی ہے اور ایسے ہر منصوبے کا مطلب سیدھا سیدھا پاکستان کی طرف بہنے والے پانی پر ایک اور ناکہ لگانا ہے۔سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے وقت دریائے سندھ کے پانی کو بھی واٹر بجٹ میں شامل کرکے تقسیم کیا گیا حالانکہ دریائے سندھ کا بہت کم کیچمنٹ انڈیا میں ہے۔دریائے سندھ میں زیادہ تر پانی چائنا، گلگت بلتستان کے ندی نالوں ،دریائے کابل اور دریائے کرم سے آتا ہے جوکہ ہرگز انڈیا کا پانی نہیں ہے۔افسوس کے سندھ طاس معاہدے کے وقت ٹیکنو کریٹس کی رائے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ڈنڈے کے زور پر فیصلہ صادر کردیا گیا حالانکہ دریائے ستلج اور سندھ کی حد تک چائنا کو بھی سندھ طاس معاہدے کا رُکن بنانے پر زور دینا چاہئے تھا۔اب چونکہ چائنا سندھ طاس منصوبے کا حصہ نہیں لہٰذا وہ ہمالیہ کے اندر سندھ اور ستلج کے پانیوں کو موڑنے کے منصوبے بنائے بیٹھا ہے جس سے نہ صرف انڈیا کو پانیوں کی فراہمی میں 30 فی صد تک کمی ہو سکتی ہے بلکہ ستلج پر انڈیا کے ہائیڈروپاور کے منصوبے بھی کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انڈیا کے کم ازکم 3600 میگاواٹ کے منصوبے ناکام ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف انڈیا نے افغانستان کی پچھلی حکومتوں کے ساتھ مل کر دریائے کابل پر ڈیم بنانے کے متعدد منصوبے بنائے ہوئے ہیں جن پر اگر عمل درآمد ہوگیا تو دریائے کابل کے پانی میں کمی ہوسکتی ہے جس سے تربیلا سے نیچے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہوجائے گا۔ اس صورت حال کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔حکومتِ پاکستان نے بھی بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے ساتھ ساتھ داسو ہائیڈروپاور کے منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ دیر آید درست آید ۔لیکن یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔ خطے کے بدلتے ہوئے ماحولیاتی اور سیاسی حالات کے تناظر میں پاکستان کو بھی بڑی سُرعت سے اپنی پالیسیاں ٹھیک کرنے اور فوری عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔