یہ رواں سال کے پہلے مہینے کی چھبیس تاریخ تھی اور یہ پنجاب کی نگران حکومت کیخلاف لاہور پریس کلب کے احتجاج کا چوتھا دن تھا۔۔۔۔یہ احتجاج نہیں صحافیوں کی "شناخت” کی مدت بعد ایک بھرپور "تحریک” تھی۔۔۔۔ہوا یوں کہ عبوری وزیر اعلی جناب محسن نقوی اور وزیر اطلاعات جناب عامر میر کو ناجانے "کیا سوجھی’ یا کسی بے دماغ مشیر نے” سجھائی” کہ انہوں نے لاہور پریس کلب کی "ضد” میں صحافی کی تعریف ہی بدل ڈالی۔۔۔۔۔۔۔اداروں سے بھلا کیا ضد۔۔۔ایسی ضد آخر "خاک”ہو جایا کرتی ہے۔۔۔نگران حکومت نے انتہائی عجلت میں ایک رہائشی سکیم کا” خاکہ” دیا اور جان بوجھ کر اس خاکے سے ستر فیصد صحافیوں کو” بلیک آئوٹ” کردیا۔۔۔۔نگرانوں نے عجب "من پسند فتویٰ” گھڑا کہ نیوز روم کے لوگ صحافی نہیں۔۔۔۔پروڈیوسرز صحافی نہیں۔۔۔۔اسائنمنٹ ایڈیٹرز۔۔۔۔میگزین ایڈیٹرز اور ایڈیٹوریل ایڈیٹرز صحافی نہیں۔۔۔۔یعنی ہر وہ صحافی، صحافی نہیں جو حاکم وقت کے من کو نہ بھائے۔۔۔ بہر حال لاہور پریس کلب اپنی تاریخ کو دہراتے ہوئے صحافیوں کی شناخت کی اس جنگ میں خم ٹھونک کر میدان میں اترا اور نگران حکومت کی صحافی کی تعریف میں” تحریف” کو رد کر دیا۔۔۔۔صدر جناب ارشد انصاری کی قیادت میں سیکرٹری زاہد عابد۔۔۔۔سینئر نائب صدر شیراز حسنات۔۔۔۔فنانس سیکرٹری سالک نواز۔۔۔۔جوائنٹ سیکرٹری جعفر بن یار۔۔۔۔شہباز چودھری ۔۔۔۔رانا شہزاد۔۔۔۔عمران شیخ ۔۔۔۔اعجاز مرزا۔۔۔۔عالیہ خان۔۔۔۔محسن بلال ۔۔۔بابا عابد۔۔۔۔۔فاطمہ مختار۔۔۔۔بدر سعید۔۔۔اور خاکسار سمیت پوری گورننگ باڈی اس باب میں ایک صفحے پر تھی۔۔۔۔۔۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن بھی اس جنگ میں پریس کلب کے سنگ تھیں۔۔۔۔۔۔لاہور پریس کلب کی پہلی پریس ریلیز ہی رنگ لے آئی۔۔۔ نگرانوں نے اپنے "شب خون” پر راتوں رات”یوٹرن”لیا اور نیوز روم کا پندرہ فیصد کوٹہ مقرر کردیا جبکہ اگلے دنوں میں نیوز روم کو "نیوز روم سٹافر” کا نام دیکر برابر حصہ دار قرار دیدیا۔۔۔۔۔لاہور پریس کلب کی تحریک کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ "عبوریے” جو پہلے نیوز روم کو صحافت کا حصہ ماننے کو ہی تیار نہیں تھے۔۔۔۔۔نیوز روم سٹافر کے "کور” میں پروڈیوسرز۔۔۔اسائمنٹ ایڈیٹرز۔۔۔۔میگزین اور ایڈیٹوریل ایڈیٹرز کو بھی "سند صحافت”دینے پر مجبور ہو گئے۔۔۔۔ سنا ہے کہ "وہ”اور ان کے "ہم نوا”پھر بھی اپنے آپ کو "فاتح لاہور پریس کلب” کہتے نہیں تھک رہے۔۔۔۔۔کچھ لوگ جبلی "ٹیڑھے” ہوتے ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے اسی میں "چھید”کرتے۔۔۔۔جس شجر سے چھائوں پاتے اسی کی”جڑیں” کاٹتے ہیں۔۔۔۔لاہور کے صحافیوں کو چھبیس جنوری کا دن کبھی نہیں بھولے گا کہ جب لاہور پریس کلب کے ایک سابق صدر،نگران وزیر اطلاعات کے بھیس میں اپنے اسی ادارے جس نے انہیں عزت بخشی تھی، کو نیچا دکھا کر نفرت کما رہے تھے۔۔۔اسی روز کراچی کے ایک اقلیتی سیاستدان لاہور پریس کلب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر محبت سمیٹ رہے تھے۔۔۔۔جی ہاں میں جناب عامر میر اور جناب انتھونی نوید کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔گردش ایام دیکھیے کہ اول الذکر پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے جبکہ موخر الذکر آئندہ پانچ سال کے لیے سندھ کے ڈپٹی سپیکر ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔انتھونی نوید نے اس دن اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ میں لاہور کے صحافیوں سے اظہار یکجتی کے لیے آیا ہوں۔۔۔کہتے ہیں کہ دو چہرے کبھی نہیں بھولتے۔۔۔۔ایک مشکل میں ساتھ چھوڑنے والا اور دوسرا ساتھ نبھانے والا۔۔۔۔۔۔جناب انتھونی نوید کا یہ جذبہ خیر سگالی بھی مدتوں یاد رکھا جائے گا۔۔۔۔۔عامر میر صاحب کو سب جانتے ہیں۔۔۔!جناب انتھونی نوید کون ہیں۔۔۔۔؟ان کی کہانی پرطانوی نشریاتی ادارے کی زبانی سنیے اور قدرت کی مہربانیوں پر سر دھنیے۔۔۔۔۔بی بی سی کے مطابق انتھونی نوید کو پاکستان کی کسی صوبائی اسمبلی کے پہلے مسیحی ڈپٹی سپیکر ہونے کا اعزاز ملا ہے۔۔۔۔۔ ان سے پہلے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی سپیکر رہ چکے ہیں مگر وہ پہلے مسیحی ہیں جو اس عہدے تک پہنچے ہیں۔۔۔۔۔۔سی ای گبسن پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے اقلیتی اور مسیحی ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔۔۔۔ان کا دورانیہ 1955 سے 1958 تک تھا۔۔۔۔۔۔سندھ اسمبلی کے نو منتخب ڈپٹی سپیکر انتھونی نوید نے سیاسی کیریئر کا آغاز یونین کونسل کے نائب ناظم کی حیثیت سے کیا اور 19 سال کے سیاسی سفر کے بعد اب وہ سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے منصب پر پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔۔جناب انتھونی کو پارٹی خدمات کے بدلے،2016 میں وزیر اعلیٰ کا سپیشل اسسٹنٹ بنایا گیا۔۔۔۔ وہ 2018 میں اقلیتوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوکر سندھ اسمبلی پہنچے تھے جہاں وہ واحد مسیحی رکن اسمبلی تھے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی نے اس بار بھی ان کا نام اقلیتی ارکان کی فہرست میں شامل کیا اور وہ ایم پی اے منتخب ہو گئے۔۔۔۔۔53 سالہ انتھونی نوید کی پیدائش کراچی کے متوسط علاقے اختر کالونی کے ایک رومن کیتھولک گھرانے میں ہوئی۔۔۔۔انتھونی کے بقول، ان کے والد رحمت مسیح محنت مزدوری کرتے۔۔۔۔ ان کے پاس ایک چھوٹی پرائیوٹ ملازمت تھی۔۔۔۔ انتھونی کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔۔۔۔۔انتھونی نے سینٹ پیٹرک سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سویڈش کالج سے گارمنٹس ٹیکنالوجی انجنیئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔۔۔۔۔انتھونی کراچی کرسچن بوائز ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔۔۔۔ 2002 میں ٹورنٹو میں ہونے والے ورلڈ یوتھ ڈے میں انہوں نے کیتھولک یوتھ کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔۔۔۔ اس کے علاوہ، وہ پاکستان کرسچن کانگریس کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ کیریئر کاؤنسلنگ بھی کرتے رہے ہیں۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ وہ وہ سیلف میڈ انسان ہیں اور ان کو تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرنا پڑتی تھی۔۔۔۔۔۔۔انتھونی رکن اسمبلی بننے کے بعد بھی اختر کالونی کے اپنے مشترکہ گھر میں رہتے ہیں۔۔۔۔وہ کہتے ہیں ان کی پیدائش وہاں ہوئی، شادی وہیں ہوئی اور بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان رہتا ہوں، اگر ان سے نکلوں گا تو میری شناخت ختم ہو جائے گی۔۔۔۔انتھونی نوید نے درست کہا کہ جس "بنیاد”پر عزت ملے اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔۔۔۔ میں نے "اسی وجہ” سے چار مرتبہ رکن اسمبلی رہے ایک دوست کو برانڈ سے "لنڈا” ہوتے دیکھا ہے۔۔۔۔ کاش کوئی عامر میر صاحب کو بھی سمجھاتا کہ "اپنے گھر "کو چھوڑنے والے "پہچان” کھو دیتے ہیں۔۔۔۔انتھونی کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی خواب میں بھی ڈپٹی سپیکر بننے کے بارے نہیں سوچا تھا۔۔۔۔بی بی سی کے مطابق انتھونی نوید جس ہاؤس کے کسٹوڈین ہوں گے وہاں کراچی کی تین بڑی جماعتیں یعنی ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اپوزیشن میں ہوگی جو پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔جب انتھونی سے پوچھا گیا کہ آیا اس صورتحال میں وہ ہاؤس بخوبی چلا پائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو انہوں نے اپنے استادوں سے سیکھی وہ یہ ہے کہ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں تو مسائل ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔۔اختلاف کو ذاتی مسئلہ بنا لیا جائے تو پھر معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔انتھونی نوید کا سندھ کے ڈپٹی سپیکر کے لیے انتخاب ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے جو صبح شام پاکستان میں اقلیتیوں سے نا انصافی کا ماتم کرتے ہیں۔۔۔۔یہی پاکستان کا” اصل چہرہ” ہے اور سندھ کی حد تک اس کا کریڈٹ بہر کیف پیپلزپارٹی کو جاتا ہے۔۔۔۔جناب انتھونی نوید کو لاہور پریس کلب کی جانب سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک۔۔۔۔سندھ کے نو منتخب مسیحی ڈپٹی سپیکر کے لیے نیک تمنائیں!!!!