"دی کشمیر فائلس” ہندی زبان کی فلم ہے، جو بنیادی طور پر، اسلاموفوبیا پر مبنی کشمیری معاشرے میں مذہبی منافرت اور تقسیم دیکھانے کا بھارتی پروپیگنڈہ ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کرنے کے لیے بھارتی حمکراں پارٹی کی طرف سے بتایا گیا کہ مسلم آتنگ بادیوں نے کشمیر کے پشتی اور نسلی باشندوں پنڈتوں کی کشمیر سے انخلا کے لیے ان کی نسل کشی کی۔ اس فلم کی تشہیر پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاستی وسائل کو استعمال کیا اور بھارت کی ان تمام ریاستوں میں جہاں بھاجپا کی حکومت ہے وہاں ٹیکس فری کر دیا گیا۔ جب کے اسے بنانے اور پھیلانے میں بھی کروڑوں روپے کے اخراجات کئے گئے۔ بھارت کے مہنگے ترین اداکاروں کو اس فلم میں کاسٹ کیا گیا تاکہ یہ فلم عوام میں پذیرائی حاصل کرے، جو 11 مارچ 2022ء کو سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی۔ بھاجپا تو اس فلم کو سپر ہٹ کہتی ہے۔ لیکن فلمی مبصرین اور نقادوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ بعض نے تو کھل کر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ فلم کشمیر کی تاریخ اور سیاست کو ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ البتہ اس نے اسلامو فوبیا کی تصویر پینٹ کی اور ‘ہندوتوا انڈیا کے لیے مفید اور منافع بخش ہے۔ کشمیریوں کے لیے افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان کی وکالت میں ابھی تک اس فلم کا جواب نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے ہم نسل پنڈتوں کے دشمن نہیں اور نہ ہی پنڈت حریت پسندوں کے کسی عمل سے بھارت منتقل ہوئے بلکہ یہ بھارتی سرکار کی ایک سازش تھی۔ اس فلم کے ذریعے کشمیری مسلمانوں اور خاص طور پر حریت پسندوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ ” دختر کشمیر ” دیکھنے والوں اور میڈیا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ اس فلم ” دی کشمیر فائلس ” کا بہترین جواب ہے۔ معروف ڈائریکٹر آدم راٹھور کی نگرانی میں یہ عوامی تھیٹر الحمد اللہ گزشتہ ہفتہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آرٹس کونسل کے اوپن ائرتھیٹر میں پیش کیا گیا۔ جو عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اوپن ائرتھیٹر ایک وسیع و عریض کھلا آڈیٹوریم ہے جہاں دو ہزار افراد کے بیٹھنےکی گنجائش ہے۔ جس زمانے میں عمر شریف، معین اختر اور ان کے ہم عصر تھیٹر کرتے تھے، یہ آڈیٹوریم مشکل سے ہی بھرتا تھا، اب تو یہ قصہ پارینہ ہو چکا، انور مقصود کے تحریر کردہ کھیل بھی آڈیٹوریم 1 میں ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بھی نہیں بھرتا جہاں پانچ سو افراد کی گنجائش ہے۔ میرے لکھے اس عوامی تھیٹر "دختر کشمیر” کو دیکھنے والوں نے اوپن ائرتھیٹر بھر دیا۔ جہاں آدم راٹھور کی بہترین ہدایت کاری نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ میں نے کبھی ادیب ہونے کا دعوی نہیں کیا اور نہ اب کر رہا ہوں لیکن اس بات کا دعوی کر رہا ہوں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے دلوں کے کسی کونے میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے محبت کے جذبات آج بھی موجود ہیں ورنہ میرے نام سے آج کے دور میں اتنے لوگ تھیٹر دیکھنے جمع نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اس تھیٹر میں نامور فن کار تھے جن کے نام سے لوگ آئے ہوں۔ خوشی اس بات کی ہےکہ عوامی سطح پر مسلہ کشمیر ابھی بھی زندہ جاوید ہے اور لوگ کشمیریوں کے دکھ درد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اسی باعث یہ کثیر تعداد ایک غیر معروف لکھاری کے فن کو دیکھنے آئی۔ اگر یہی تھیٹر کسی اور موضوع پر ہوتا تو ممکن تھا کہ میرے چالیس پچاس دوست چہرہ دیکھانے آ جاتے۔ "دختر کشمیر” نے پاکستان کے عوامی تھیٹرز میں نہ صرف جگہ بنائی بلکہ پہلے ہی پروگرام میں سپر ہٹ ہو گیا۔ عشروں بعد آرٹس کونسل کا اوپن ائرتھیٹر سامعین سے بھرا اور ڈیڑھ گھنٹہ کے طویل دورانیہ کے دوران مجمعے پر سکتہ طاری رہا۔ کنن پوش پورہ کی متاثرہ خواتین کی یاد میں لکھے گئے عوام تھیٹر نے مختصر وقت اور پہلے ہی شو میں مقبولیت حاصل کر لی، کہا جا سکتا ہے کہ یہ عوامی تھیٹر سپر ہٹ رہا۔ مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کی کثیر تعداد نے پہلی مرتبہ کسی کشمیری پروگرام میں ملی جذبہ اور دلچسپی سے شرکت کی۔ بعض خواتین نے کہا کہ ہم سری نگر سے ہیں اور اپنے شہر کی صورت حال دیکھنے آئی ہیں۔ شو کے خاتمے کے بعد کئی افراد نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ آپ واقعی کشمیر کی آواز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” دختر کشمیر ” بھارت کی ہندی فلم دی کشمیر فائلس کے پروپیگنڈے کا بہترین جواب ہے۔ تھیٹر کا بنیادی تھیم مقبوضہ جموں و کشمیر میں پنڈت، مسلمان یکجہتی اور بھارتی فوجیوں کی کشمیری خواتین کے ساتھ ذیادتی اور اجتماعی ریپ تھا، تھیٹر اپنے اس مقصد کو نمایاں کرنے میں کامیاب رہا۔ معروف اداکار ،ایان خان کمانڈر اکرم ڈار تھیٹر کا ہیرو اور اداکارہ شانزے وردہ پنڈت لڑکی مایا کماری کے کردار کے ساتھ ہیرون تھی، پورا تھیٹر ان دونوں کے گرد گھومتا رہا۔ مایا کماری پہلے تو اکرم ڈار کو حریت سے روکتی ہے جس کا باپ پنڈت جگت ناتھ بھارتی کرنل وشے کمار کا مخبر ہے۔ جب اکرم ڈار اسے قائل کرتا ہے کہ جہاد ہمارا دھرم ہے لیکن کشمیر ہم سب کا ہے پنڈت اور مسلمان سب کشمیریہیں، یہ مدراسی اور سکھ فوجی کشمیر پر حکومت کیسے کر سکتے ہیں یہ ہمارا سب کا کشمیر ہے تم پنڈتوں کو یہ بات سمجھاو۔ مایا کماری حریت کشمیر کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔ کرنل وشے کمار مایا کماری کو کہتا ہے کہ تو چاتی ہے کہ تیرے ساتھ بھی کنن پوش پورہ والا حشر ہو لیکن میں ایسا کروں گا نہیں تو آتنگ باد ہے لیکن پنڈت بھی ہے، لیکن میرے ساتھ چل یہاں کمانڈر اکرم ڈار پہنچتا ہے مایا کماری کو چھوڑا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بھارتی فوجیوں کو کشمیر کی بیٹی چاہیے وہ مسلمان ہو یا پنڈت۔ کرنل وشے کمار اکرم ڈار پر گولی چلاتا ہے مایا کماری کود کر سامنے آتی ہے گولی اسے لگتی ہے اور ہلاک ہو جاتی ہے اور آخری الفاظ ادا کرتی ہے "بالے میں نے کہا تھا کہ تیری خاطر جان دے دوں گی، میں پنڈت ہوں مگر کشمیری بھی ہوں۔ مایا کماری اس سے قبل ایک اور ڈیلاک میں کہتی ہے کہ کرنل وشے کمار پنڈتوں کے ایک ایک خاندان کو دس دس کروڑ نقد اور بھارت میں زمین دے کر کشمیر سے بھارت منتقل کرنے چاہتا ہے لیکن ہم پنڈت کشمیر چھوڑ کر بھارت نہیں جانا چاتے۔ بھارت ایک ریاست ہے تو کشمیر اس سے پرانی ریاست ہے ہم بھارت میں کیوں ضم ہوں۔ کرنل دوسرے فائر میں اکرم ڈار کو شہید کرتا ہے اس سے پہلے اکرم ڈار جذباتی ڈہلاک بولتا ہے، کرنل میں تجھے گرفتاری دینے سے زیادہ کشمیر پر مرنے کو ترجیح دوں گا۔ تاکہ میرا خون میرے وطن کی مٹی پر گرے اور جذب ہو جائے۔ میرا جسم تہاڑ جیل کے بجائے میرے وطن کی مٹی میں دفن ہو۔ میں تم سے زندگی کی بھیک نہیں مانگتا۔ مجھے معلوم ہے نہ تو اتنا رحیم دل ہے اور نہ اتنا بہادر، چلا گولی تم بزدل ہو تمیں کشمیر کی زمین اور دختر چاہیے وہ مسلمان ہو یا پنڈت تمارے کوئی جنگی اصول نہیں۔ کرنل وشے کمار کہتا ہے کہ سارے آتنگ بادیوں کو ختم کر دیا ہے کشمیریوں کو آزادی کا سبق بھول جائے گا۔ کمانڈر اکرم ڈار کہتا ہے کہ کرنل، جس کو تم فتح سمجھتا ہے یہ وقفہ اور جنگ میں آرضی ٹھہروں ہے اور جنگوں میں وقفہ آتا رہتا ہے ۔ جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے تمارے ساتھ جنگ جاری رہے گی اور تمیں کشمیر سے جانا ہو گا۔ دونوں کی ہلاکت کے بعد معروف کشمیری تاجر آطف قیوم دونوں میتوں پر آزاد کشمیر کا جھنڈا ڈالتا ہے، اسی کے ساتھ کشمیر کا نغمہ چلتا ہے "میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن "۔ ادکارہ سپنا غزل جو تھیٹر میں کنن پوش پورہ کی متاثرہ خاتون پگلی کے روپ میں بار بار سامنے آتی رہی نے کمال کی اداکاری اور چبتے جملوں سے ہزاروں افراد کو سوگوار کر دیا۔ میرے، بچے، میرے بھائی کی صدا کے ساتھ پگلی کی چیخوں نے سامعین کےآنسوؤں نکال لیے اور ہال میں سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتی رہی۔ آڈیٹوریم میں موجود کئی خواتین و حضرات رو پڑے ایک موقع پر پگلی نے بے ساختہ آزاد کشمیر کے عوام کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ، ہمارا تو سب کچھ لٹ چکا مگر اس پار سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیا ہم سے ناراض ہیں۔ پھر اپنی بات کو گھمایا کہ خاموش رہو، پیر پنجال ناراض ہے، اس کی چوٹیوں پر بھارتی فوجی شراب پی کر قہقہے لگاتے ہیں، کوئی انہیں وہاں سے نہیں ہٹاتا۔ خاموش رہو بانیال خفا ہے اس کی چوٹیوں پر کشمیریوں کے چیخنے کی آوازیں آتی ہیں کوئی ان کو بچانے نہیں آتا۔ جہلم خاموش ہے اس کے سینے سے ہاوس بوٹ غائب ہی اور شکاروں کی رہل پہل نہیں، کشمیر اداس ہے لوگوں کشمیر اداس ہے۔ کشمیر چل رہا ہے اسے بچا لو۔ ایک سین میں جب پگلی چیختی ہے کہ کشمیر میں دختر کشمیر کو ننگے سر کر دیا گیا کوئی چادر ڈالنے نہیں آتا تو مجاہدین اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں پگلی کے سر پر اپنے کندھے کا رومال ڈالتے ہیں، کمانڈر اکرم ڈار عہد کرتا ہے کہ جب تک کنن پوش پورہ کی ایک ایک بہن کا بدلا نہیں لیتے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس موقع پر ماحول جذباتی ہو جاتا ہے اور مجاہدین نعرے بلند کرتے ہیں، کشمیر ہمارا ہے سارے کا سارا ہے، اس کی خاطر ہم لڑیں گے، اس کی حفاظت ہم کریں گے، اس پر حکومت ہم کریں گے۔ معروف ڈائریکٹر جو اس ڈرامے کا بھی ڈائریکٹر تھا، آدم راٹھور نے کمانڈر اکرم ڈار کے والد عبداللہ، کا کردار ادا کیا۔ تھیٹر کی کامیابی کا تمام سہرا آدم راٹھور ہی کے سر ہے جس نے اپنی فنی مہارت سے اس کھیل کو سپر ہٹ کر دیا۔ ان کی ہدایت کاری نے تھیٹر میں نکھار پیدا کیا۔ نوجوان زید خان نے عبداللہ کا داماد اور مجاہد اسلم کا کردار۔ اداکارہ مہک نور نے کمانڈر کی بہن رضیہ کا کردار ادا کیا۔ فوج جب رضیہ کو گرفتار کرنے آتی ہے تو وہ چیخ کر کہتی ہے ” تم دختر کشمیر کی پریشان کرتے رہو کشمیر تمیں نہیں مل سکتا، مودی کے ہاتھ میں نہیں ہے وہ لکیر، جس سے وہ حاصل کرے کشمیر۔ اس جملے پر حاضرین کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجا کر اس کو داد دی۔ مجاہد اسلم کو جب بھارتی فوجی گرفتار کرتے ہیں تو کرنل اس کو کہتا ہے کہ میں تمیں عبرت کا نشان بناو کا تاکہ شہ رگ کا سبق بھول جاو، کھاتے بھارت کا اور گاتے پاکستان کا ہو اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ کرنل کشمیر میں ہر فرد کے پاس اپنی زمین اور اپنا گھر ہے، بس اسی کا کھاتے اور اسی کا گاتے ہیں۔ سنئیر اداکار الیاس ندیم نے پنڈت جگت ناتھ کا کردا ادا کیا، جو آخر میں تسلیم کرتا ہے کہ مودی نے کہا تھا بھارت ماتا کی مدد کرو لیکن بھارت نے اس کے سلے میں دکھ ہی دئے۔ بھارتی فوج سے تعاون کر کے ہم سے غلطی ہوئی۔ اعجاز خان نے مولوی نذیر احمد ذوالفقار عاطف بھارتی فوج کے میجر، حسین راٹھور اور ارباز خان نےانڈین آرمی سپائی، عدیل جدون۔ ہنی خان، گل شیر بلوچ، جاوید علی نے کمانڈر کے ساتھیوں کا کردار ادا کیا۔ معاون ہدایت کار تھےخان محمد صادق، ھنی خان اور عبدالصمد راٹھور ، کراچی میں مقیم کشمیری نامور شخصیات سردار مقصود الزماں، سردار نزاکت، آطف قیوم، سردار ظفر سردار محمد عزیز ایڈووکیٹ، عامر رضا ایڈووکیٹ، جمشید حسین، خواجہ عبداللہ ایڈووکیٹ معروف صحافی سردار لیاقت کشمیری، محمد اظہر عبدالحفظ بٹ، محمد شاہین سدھن گلی، محمد جمیل خان فاضل خان اور دیگر نے شرکت کی۔