میدان سیاست ہو یا کوئی بھی دوسرا شعبہ زندگی ہمارے دیس کے طور طریقے ہی نرالے ہیں۔اس نرالے پن کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک جملہ بہت وائرل ہوچکا ہے۔یہ جملہ ہمارے حالات کے مطابق ہے، جو من وعن یہاں پیش ہے۔اس جملے میں کہا گیا ہے کہ "ہم بھی عجیب قوم ہیں ووٹ دیتے ہیں ابوجہل جیسوں کو اور کاکردگی چاہتے ہیں حضرت عمر رض جیسی”۔اس جملے میں پاکستان کی سیاست بالکل ایسے بند کردی گئی جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔پاکستان کے بزرگ سیاستدانوں کے خیالات سنیں تو وہ جنرل ضیاءالحق کے زیر سایہ جمہوری آشرم میں آنکھیں کھولنے والے سیاستدانوں کو حقارت سے 1985ء برانڈ کے سیاستدان کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے چارعشروں میں انہی 1985ء برانڈ کے سیاستدانوں کا کوچہ اقتدار میں تھوڑا یا زیادہ عمل دخل مستقل موجود رہا ہے۔اقتدار میں یہ جب جب آئے تو ان کا اختیار کم تھا یا زیادہ مگر جو انہوں نے اپنی ذات کیلئے چاہا وہ کیا۔سٹیبلشمنٹ ان کی بدعنوانیوں کے ثبوت بناکر بغلیں بجاتی رہی کہ جیسے اس نے اپنا کام پورا کرلیا ہو۔ان ثبوتوں کی بنیاد پر بعد ازاں ان 1985ء کے سیاستدانوں کو قابو رکھا گیا۔وقت گزر گیا ان سب کے کارنامے اب تاریخ میں محفوظ ہوچکے ہیں۔ان سیاستدانوں کی بہت سی ان کہی کہانیاں پوشیدہ ہیں کیونکہ ہمارے جیسے ڈرپوک قلمکاروں پر ان کے کارنامے ضبط تحریر کرنے کے خیال سے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ حال تو اہل صحافت کا ہے جبکہ دوسری طرف اب 1985ء کے سیاستدانوں کے خاندان تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔وہ جن کو بزرگ سیاستدان کم ترین سطح پر رکھتے تھے کی اولادیں اب ان کی جگہ لینے لگی ہیں۔گویا موروثیت کی پود تیار ہوچکی ہے۔ دنیا بھر میں موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے لیکن پاکستان میں سیاسی موروثیت اب بھی پروان چڑھ رہی ہے۔1985ء برانڈ کے ان سیاستدانوں کے آشرم میں پلنے والی ان کی اولاد کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی قابلیت ،لیاقت اور کردار کیا ہوگا۔سیاست کی اس نئی پیڑی میں نواز لیگ کی صاحبزادی مریم نواز نئے سیاسی رجحانات رقم کررہی ہیں۔سردست ان میں اس بات کے علاوہ کوئی گن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ تین ریکارڈ بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔وہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں کہ سہاگن ہونے کے باوجو وہ مشرقی روایات کے برعکس اپنے آپ کو مریم صفدر کے بجائے مریم نواز کہلوانا پسند کرتی ہیں۔اگرچہ یہ ان کی ذاتی پسند ہے لیکن چونکہ اب وہ ایک سیاسی جماعت کی چیف آرگنائزر بن چکی ہیں اور پاکستانیوں کو برے اور بھلے کی تمیز کے بھاشن بھی دینے لگی ہیں، اس وجہ سے ان معاملات پر عوامی حلقے بات بھی کرنے لگے ہیں۔خیبر پختونخوا میں ان کیلئے بہرحال ایک نرم گوشہ اس لئے موجود ہے کہ وہ اس صوبے کی بہو بھی ہیں جس کی وجہ سے ان کی بہت سی باتوں سے صرف نظر کیا جاتاہے ۔ہاں کبھی کبھار کسی دوسرے سیاسی گھر کا چشم وچراغ ان کی بات پر سیخ پا ہو تو یہ اس کی سیاسی ضرورت ہوگی۔جیسے حال ہی میں مریم نواز ایک لمبے عرصے کے بعد اپنے سسرالی علاقے آئیں تو ہزارہ میں انہوں نے صوبہ ہزارہ کے قیام کا اعلان داغ دیا۔ اس اعلان پر ولی باغ کے سیاسی جانشین کی تنقید تو بنتی تھی۔اس کے علاوہ مریم بی بی نے اگر یہ کہا کہ ان کی کہیں بھی کوئی جائیداد نہیں اور پھر ماشاءاللہ وہ اچھی خاصی Benifishry نکل آئیں تب بھی صوبے میں کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔البتہ جمعرات کے روز انہوں نے لاہور میں لیگی کارکنوں کے سامنے مہنگائی پر جو سیاسی فرمودات بیان کئے،اس سے ان کی سیاسی "بصیرت” پرسوال اٹھنے لگے ہیں۔مریم بی بی نے اپنے چچا اور مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کی حکومت کو ہی اپنا ماننے سے انکار کردیا۔یہ انکار کرنے کی فوری وجہ 170۔ارب کے وہ نئے ٹیکس تھے جو ان کے فیورٹ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو تحفے میں دئے۔ان ٹیکسوں کے نفاز کو 48۔ گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ مریم نے حکومت کو ہی اپنا ماننے سے انکار کر دیا۔ان ٹیکسز کا اعلان اس اسحاق ڈار نے کیا، جن کی وطن واپسی پر مریم بی بی انتہائی مسرور تھیں کہ وہ اپنی زنبیل سے ایسا نسخہ نکالیں گے کہ معیشت ہری بھری ہوجائے گی۔اس پر مستزاد یہ کہ ڈار صاحب نے یہ کہہ کرکہ وہ آئی ایم ایف کی پرواہ نہیں کریں گے پوری قوم کو آسمان پر تو چڑھادیا لیکن اب منی بجٹ کی شکل میں قوم کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہے۔ان حالات میں مریم بی بی کا یہ کہنا کہ یہ حکومت تو ان کی نہیں ہے بلکہ ان کی حکومت وہ ہوگی جس میں نواز شریف شامل ہوں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ حکومت ان کی نہیں بلکہ نو جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے۔اور یہ کہ تمام جماعتیں مل کر اس کارکردگی کی ذمہ دار ہیں۔مریم بی بی کو ان فرمودات بیان کرنے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہیے تھا کہ پچھلے نو ماہ کی ان کے چچا اور ان کے بقول نوجماعتی اتحاد کی حکومت میں جو جو کارکردگیاں ہوتی رہی ہیں، ان کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ لندن یاترا کرنے گئیں اور اپنے والد سے مل سکیں۔مریم بی بی نے چچاجان کی اس حکومت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ جن مثالی وزیر خزانہ کی آمد پر خوش ہو رہی تھیں ان کی واپسی اور ان کے دیگر کزنز کی واپسی کی راہ اسی حکومت کی "ترجیحاتی کوششوں” سے ممکن ہوئی ہے۔ انہیں ایک لمحے کے لئے یہ بھی سوچ لینا چاہیے تھا کہ آگے چل کر کسی موقع پر اگر ان کے والد محترم میاں نواز شریف بھی پاکستان میں قدم رنجہ فرمائیں گے تو وہ اسی حکومت کی کوششوں کا نتیجہ ہو گا۔مریم نواز کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ یہ وہ اتحادی حکومت ہے جس نے عوام کو مہنگائی سے وعدے کے باوجو ریلیف تونہیں دیا لیکن راتوں رات ایسی قانون سازی کی کہ ان کے نہ صرف قرابت داروں کو بلکہ اتحادیوں کو بھی ریلیف مل گیا۔یہ سب اس جادوئی قانون سازی کی وجہ سے ممکن ہوا جو ترجیحی بنیادوں پراس حکومت نے کی۔اس حکومت نے نیب قوانین میں ایسی "شاندار” ترامیم کیں کہ وہ عدالتیں جو ان کی جماعت کے قائدین کو زندان میں ڈالنے پر مصر تھیں وہ انہیں بریت نامے جاری کرنے لگیں۔اس وقت جب مریم بی بی کے لوگوں کو فائدہ ہو رہا تھا تو انہوں نے اس حکومت سے بیگانگی ظاہر کرنے کے لئے ایک لفظ بھی نہ کہا، لیکن اب 170۔ ارب کے ٹیکس لگنے کی وجہ سے انہیں عوام کے ووٹ دور جاتے ہوئے دکھائی دئےتو انہیں یہ حکومت ہی انجان لگنے لگی ہے۔گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی سیاست ہو رہی ہے۔ یہ سیاست 1985ء برانڈ کے سیاستدانوں کا وطیرہ تو تھا ہی مگر اب یہ طرز وراثت میں اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔مریم صاحبہ کی جائیداد سمیت کچھ باتیں خالی اکاؤنٹ کے چیک کی طرح باؤنس ہوچکی ہیں جن کو ان کی سیاسی تجربہ کم ہونے پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن اب انہیں اپنے اساتذہ سے یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ سیاسی راہداریوں میں صرف میٹھا ہی نہیں کھانا ہوتا بلکہ کڑوے گھونٹ بھی نگلنے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کردار کی سچائی کے ساتھ ساتھ عوام کا حقیقی درد بھی درکار ہوتا ہے جو کم از کم 1985ء کے سیاستدانوں میں نہیں پایا گیا۔یہ درد اگر انہوں نے دیکھنا ہی ہے تو پرانے مخلص سیاستدانوں کی زندگی میں جھانکنا ہوگا۔