کچھ لوگوں کو مٹی کے حوالے کردینے کے باوجود دل یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ وہ اس جہان فانی سے اپنا رزق سمٹ کر روانہ ہوگئے ہیں اجمل خٹک کشر کا بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتا ہے 23 برس ایک ادارے میں کام کرتے ہوئے انہیں سمجھنے اورجانچنے کے بعد میں ناصرف انہیں اپنا مشیر(بڑا) جبکہ قلم وقرطاس کا قلند ر سمجھنے پر مجبور ہوں درویش صفت اجمل خٹک زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست کے اسرارورموز سے ناصرف واقف تھے بلکہ ان کا شمار خدائی خدمت گاروں کی حقیقی صفات کو اپنانے والے افراد میں ہوتا تھا ، طبیعت میں ریشم کی طرح نرم’ گفتار میں دلیل،چال میں انکساری، میل جول میں قلندری، زندگی میں سادگی پر عمل پیرا رہے صحافت کو ذریعہ معاش تو ضروربنایامگر رزق کامنظرنظروں سے اوجھل رکھا اور اسے خدائے بزرگ وبرتر کے حوالے کردیا مجھے ہمیشہ صبر، برداشت اورمعاف کردینے کی سعی لاحاصل میں جتے رہتے کبھی کبھار ان کی معاف کردینے کی روش دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ تعلیمات حضرت عیسیٰؑ پر عمل پیرا ہے یعنی اگر کوئی ایک گال پر تھپڑرسید کردے تو دوسر ا بھی آگے کردیتے ان کی انہیں اوصاف نے انہیں صحافی برادری میں عزت وتکریم بخشی انہیں بابائے پشتون خدائی خدمت گار رئیس احرار خان عبدلغفار خان کی تقریب میں نظامت کا بھی شرف حاصل رہا کراچی میں پختونوں کے سنجیدہ مذاکرات ، سیمینار ، مباحثہ میں انہیں سے نظامت کرائی جاتی تھی یعنی وہ تقریراور تحریرکے یکسا ں شہوار تھے بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ اجمل خٹک نے کشر کا لاحقہ اے این پی کے سابق صدرمعروف شاعر، دانشور، سیاست داں اجمل خٹک کے احترام میں لگایا تھا وہ انہیں اپنامشیر (بڑا)سمجھتے تھے اسی لیے ان کے ہم نام ہونے کے بناپر اپنے نام کے بعد انہیں کشر(چھوٹا) لگانا بہتر محسوس ہوا اس سے ان کی انکساری بھی جھلکتی ہے دنیاوی اور دینی علوم۔پر بھی یکساں دسترس رکھتے تھے درویش صفت۔دنیا کے حصول کی ہوس سے دور ایک ملنگ صحافی تھے عدم۔تشدد کا عملی نمونہ ٹھے اور مجھے بھی اس ضمن میں سمجھانے کی سعی لا حاصل میں جتے رہتے تھے وہ مجھے آنکھ کے بدلے دو آنکھ اور دانت کے بدلے بتیسی کے عمل سے روک تو نا پائے تاہم سمجھنے کے عمل سے بھی ہاتھ نہیں کھنچا صوم۔صلوة کے پابند صحافت سے دنیاوی فائدہ حاصل نہیں۔کیا میں۔انہیں۔اپنا بڑا بھائی گردانتا رہاہوں ہمشہ سفید لباس زیب تن کئے رکھتے تھے تاہم۔آخری بار نیا سفید لباس جو انہیں۔نے پہنا میں انہیں اس لباس میں۔نہیں دیکھ پایا شاید مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی آخری صفوں میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی انہیں وہی سے الوداع کہا اور فورا”چل پڑا میں ایک شفیق نفیس عالم فاضل رحم۔دل انسان کو مٹی میں دفن۔ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا اللہ ان ہر رحمتوں کے در وا کرے الللہ حافظ اجمل خٹک کشر