شاہ جی سے میرا اختلاف اسٹبلشمنٹ یا اس کے حساس اداروں سے قریبی تعلقات پر ہوتا وہ دبے لفظوں میں مجھے ان سے دوری کا مشورہ دیتے اور میں نوجوانی کے زعم میں ان سے بحث کرنے لگتا اور حوالہ دیتا کہ یورپ سے خصوصی اسائمنٹ پرآنے والے انگریز رپورٹرز بھی تو سی آئی اے یا ان کے اپنے ملکوں کے خفیہ اداروں کے ٹائوٹ ہوتے ہیں جن میں "ڈینیئل پرل” بھی شامل تھاجسے بعد ازاں کراچی میں جہادیوں نے اغوا کرکے قتل کردیا تھا اس کے لئے زباں زدعام تھا کہ اسے سی آئی اے خصوصی ٹاسک دے کر باربار بھیج رہی تھی اسی لئے وہ بن لادن کی تلاش کے مشن پر تیسری یاچوتھی بارکراچی آیاتھا اور سی آئی اے مسلسل ایسے ٹاوٹ صحافیوں کو بھیج کر ہمارے دفاعی اداروں کو ہراساں کرتی رہتی تھی اور9/11 سے 2010 کے درمیاں ہمارے اداروں کو دبائو میں لانے کے لئے اس نے باقاعدہ ایک مہم شروع کررکھی تھی عام طور پر خیال یہی ہے کہ "ڈینئل پرل” کی تیسری بارآمد پر (تنگ آمد بجنگ آمد) ہمارے اداروں نے کراچی کے ایک صحافی کے ذریعے جہادیوں کو ڈینئل کے اسامہ بن لادن کی کھوج کےمشن کی خبر لیک کرکے اسے سزا دلوائی تھی جو بعد میں دیئے گئے ٹاسک سے بھی دور نکل گئی اور ان گدھوں نے ڈینیئل پرل کے فرار کی کوشش پراسے قتل کرڈالا اور لاش بھی غائب کردی، ایک روز رپورٹرز کی میٹنگ میں کچھ رپورٹرز کے اسائمنٹ فوج کی مانیٹرنگ ٹیموں کے ساتھ مختلف مقامات پر چھاپوں پر لگائے گئے تو اجلاس ختم ہوتے ہی شاہ جی مجھے ہاتھ پکڑ کر ایڈیٹر عظیم نذیرکے کمرے میں لے گئے اور باقاعدہ احتجاج کرتے ہوےعظیم صاحب کو مخاطب کرکے بولے آپ آغا کو سمجھائیں یہ سب کچھ پروفشنل ازم کے خلاف ہے صحافتی امور میں فوج سے متعلق اداروں کو ملوث کرنا پیشہ ورانہ بددیانتی ہے شاہ جی سے اس قدر سخت جملوں کی نہ مجھے توقع تھی نہ ہی ایڈیٹر کو عظیم صاحب نے بات کو سنبھالتے ہوے کہا شاہ جی اس معاملے کو چیف صاحب کے علم میں لاتے ہیں پھر جیسے ان کی ہدایت ہوگی کرلیں گے شاہ جی ہماری اسٹبلشمنٹ کے سیاست یاصحافت میں مداخلت کے سخت خلاف تھے دبے لفظوں میں اپنے جذبات کااظہار بھی کرتے رہتے لیکن کبھی کبھی غصہ میں بھی آجاتے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے غیراخلاقی رویہ اپنایاہو ان کی ڈانٹ میں بھی شفقت اور تربیت کاعنصر نمایاں ہوتا میری مجبوری ادارہ کی پالیسی اور اس کے چیف ایڈیٹر کی ہدایات تھیں جو وہ وقتا فوقتا فون پر یاخط وکتابت کے ذریعے دیتے رہتے اور سونے پر سہاگہ وہ ملکی سطح کا ماحول تھا جو میرے لئے مددگار ثابت ہورہاتھا یہ وہ دن تھے جب 1999 میں آرمی چیف پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کاتختہ الٹ کر عنان اقتدار پر بزور قوت قبضہ کرلیاتھا اور پہلی مرتبہ ہماری افواج نے اپنی قوت کاایسا مظاہرہ کیاتھا کہ دنیا حیران رہ گئی تھی ان کا آرمی چیف فضا میں تھا اور قانونا برطرف بھی مگر اس کے باوجود فضا میں معلق آرمی چیف نے طاقت ور نواز حکومت کا ایک گولی چلائے بغیر ہی تختہ الٹ دیاتھا اور اس میں سب سے اہم کردار کراچی کے کور کمانڈر جنرل مظفر عثمانی کاتھا، ان کے اسٹاف افسر ان دنوں میجر ظفراللہ میرے بہت گہرے دوست تھے ان کی وجہ سے پرویز مشرف کی فوجی حکومت کی کراچی میں بنائی مانیٹرنگ اور…….. ٹیموں کے ساتھ میں خبریں کے کرائم رپورٹرز اور چھاپہ مار ٹیموں کے اسائمنٹ لگاتا یوں ہمارے رپوٹرز کی اکسکلوزو اسٹوریز دوسرے روز شائع ہوتیں بڑے اور نامور لوگوں حتی کہ سابقہ وزراء تک کی گرفتایوں کی خبریں بمع تصاویر اور تفصیل سے شائع ہوتیں جس پر دوسرے روزشہر کے بڑے اخبارات کے اجلاسوں میں ہماری خبریں ہی موضوع ہوتیں ایسے میں ایک اور اہم واقعہ ہوا ادارہ کے سینیر کورٹ رپورٹر نجم مرزا کی کسی خبر پرناراض ہوکر ملٹری کورٹ نے انہیں نوٹس جاری کردیا وہ پریشاں حال ایڈیٹرعظیم نذیر کے پاس گئے انہوں نے کراچی میں ادارہ کے ڈائرکٹر ایڈمن اور چیف ایڈیٹر کے قریبی عزیز شبیر چوہدری کے پاس بھیج دیا انہوں نے لاہور ضیا شاہد سے بات کی جہاں سے انہیں کورا جواب مل گیا، ادارہ کی پالیسی تھی کہ طاقت وروں کو نہ چھیڑو پھر ان کے ساتھ پنگا کیوں کیا الٹا نجم کو نوٹس کی بھی دھمکی مل گئی وہ مایوس ہوکر نادرشاہ عادل کے پاس پہچ گئے کیونکہ ادارہ میں ہر مظلوم کا آخری سہارا وہی سمجھے جاتے تھے اور شاہ جی اپنی نوکری دائو پر لگائے ہر مظلوم کے ساتھ ڈٹ کرکھڑے ہوجاتے انہیں نتائج کی پرواہ نہ ہوتی ہمارے شاہ جی اسے میرے پاس لائے اور شرمائے سے لہجہ میں اس کی سفارش کرنے لگے ایسے میں ان کے لبوں پر آئی مسکراہٹ ان کے مزاج کاساتھ نہیں دے رہی ہوتی مگر ان کی ہمدردانہ طبیعت کو کسی ساتھی کی تکلیف گوارہ نہ تھی میں نے ایک طاقت ور دوست افسر کو فون کیا اس نے دوسرے روز نجم مرزا کو عدالت بلایا دو لفظوں کامعافی نامہ لکھوایا اوررپورٹر کے پیش ہوے بغیر ہی نوٹس واپس ہوگیا شام کو نجم مرزا، شاہ جی کے ساتھ رپورٹنگ روم میں شکریہ ادا کرنے آئے تو شاہ جی میرے اس عمل کی تعریف کرنے لگے، میں نے محسوس کیاکہ اس موقع پر ان کے چہرے پرحقیقی خوشی کی بجائے زبردستی کے تاثرات نمایاں ہیں یہ تھے ہمارے کامریڈ شاہ جی…فوجی مانیٹرنگ ٹیموں کے ساتھ اسائمنٹ لگانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہماری چھاپہ مار ٹیم کسی تھانے میں گھستی تو ایس ایچ او تھانہ چھوڑکر پچھلے دروازے سے فرار ہوجاتا اس طرح ضیاء شاہد کے اس نعرے "جہاں ظلم وہاں خبریں” کی کراچی میں دھاک بیٹھ گئی اور ہمارے رپورٹر روزانہ عملی صحافت کے ساتھ دوچار مظلوموں کو انصاف بھی دلادیتے جس پر جہاں ایک طرف چیف صاحب خوش ہوتے وہیں ہماری سرکولیشن میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاتھا اور جب میں نے ڈیرھ سال بعد استعفی دیاتو خبریں کی تعداد اشاعت 12 ہزار ہوچکی تھی یوں ہم جنگ اور ایکپریس کے بعد تیسرے نمبر پر آچکے تھے اسی طرح پرویز مشرف کے اغوا اور طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ کی کوریج میں بھی ہماری عدالتی رپورٹنگ ٹیم سب سے آگے تھی نواز شریف کے مقدمہ کے ذمہ دار افسر خبریں کی ٹیم کو عدالت کے اندر تک لے جاتے ایک مرتبہ رپورٹنگ ٹیم جس کی قیادت لیاقت رانا کرتے ہوتے تھے واپسی پراپنے دلچسپ تجربات بیان کرتے تھے کہ ایک کرائم رپورٹر نے بتایا کہ نواز شریف کی سیکوریٹی ٹیم کے انچارج اے ایس پی غلام محمد ڈوگر اسے ایک طرف لے گئے اورسرگوشی کے اندار میں کچھ جرائم پیشہ لڑکوں کی طرف اشارہ کرکے بولے انہیں بیگم کلثوم نواز اور مریم سمیت دونوں بیٹیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لئے لایا جاتاہے یہ لوگ ان خواتین کو غیر اخلاقی حرکات کرکے ہراساں کرتے ہیں اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوے اس رپورٹر سے استدعاکی کہ وہ کسی طرح ان کو روکیں یادیگر صحافیوں کو ساتھ ملاکر احتجاج کریں وہ یہ کہتے ہوئے بہت دکھی تھا کرائم رپورٹر کی بات پر اکثر رپورٹر ہنس رہے تھے مگر میں نے دیکھا کہ شاہ جی کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیاتھا بھیڑ چھٹنے کے بعد وہ سرگوشی کے انداز میں بولے یار خالد” نواز شریف کی خواتیں کے لئے کچھ کرو حالانکہ شاہ جی نواز شریف کو بطور سیاستداں پسند نہیں کرتے تھے مگر جہاں اخلاقیات یا قدروں کی پائمالی کا سوال ہو وہاں، شاہ جی خاموش رہ جائیں یہ کیسے ممکن ہے، نوازشریف کوطیارہ ہائی جیکنگ کیس میں جج نے سہ پہر کو عمرقید کی سزاسنائی ملک بھر میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی چھوٹے بڑے اخبارات نے ضمیمے شائع کئے شام 5 بجے کے قریب عظیم نذیر کا فون آیاکہ چیف صاحب کہ رہے ہیں جج کے فیصلہ کی کاپی چاہئے، 4 بجے ساری عدالتیں بند ہوجاتی ہیں، میں نے بہت بہانے کئے مگر چیف صاحب نہ مانے اور نادرشاہ جی کی ڈیوٹی لگادی وہ ہر تھوڑی دیر بعد فون کرتے اور مجھ سے ہمدردی جتاتے ہوے حوصلہ افزائی کرتے وہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی مخلص تھے اور شاید میرے کام کی وجہ سے مجھ سے پیار بھی کرتے تھے نوازشریف کے کیس پر نظر رکھنے والے ایک افسر کو میں نے فون کرکے مدعاء بیان کیا پہلے تو وہ ٹالنے لگاکہ ابھی دو گھنٹے پہلے تو فیصلہ دیاہے ابھی تو ٹائپ بھی نہیں ہوا ہوگا، کل دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ میری التجاء پر شاید اسے ترس آگیا وہ بولا شام 7 بجے میرے گھر سے لے لینا صدر میں لکی اسٹار کے سامنے ان کا فلیٹ تھا میں ڈیفنس ویو سے نکلا تو 15 منٹ بعد ان کے فلیٹ کے سامنے پہنچ کر فون کیا وہ 30/40 پیج کا فیصلہ لئے باہر آگئے انہوں نے فیصلہ مجھے دیتے ہوے کہا یہ اصلی ہے اور اس کی ابھی کوئی کاپی بھی نہیں کروائی اس کے ہر صفحہ پر جج کے دستخط ہیں پھر وہ سپاٹ لہجہ میں بولے اگر یہ ادھر ادھر ہوا "تم پھانسی چڑھوگے یا میں” فیصلہ وصول کرتے وقت مارے خوشی کے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میں نے فیصلہ موٹر سائکل کے پیچھے اسٹیند پرکلپ میں پھنسایا اور چل پڑا کراچی میں دو ماہ ایسے آتے ہیں جب مغرب سے تیز ہوائیں چلتی ہیں اور بعض اوقات یہ اتنی تیزہوتی ہیں کہ اونچی بلڈنگوں پر تعمیرات کرنے والے مستری اور مزدور بھی خوف زدہ رہتے ہیں یہ وہی موسم تھا،جب میں تاج محل ہوٹل کے سامنے شاہراہ فیصل پر آیا اور بمشکل آدھ فرلانگ چلا ہونگا کہ ہوا کے شدید دبائو سے فیصلہ کا پورا برنچ کلپ سے نکل کر سڑک پر گرا اور فیصلہ کے کاغذ ہوامیں اڑ کرادھر ادھربکھرگئے-