بس یہی رہ گیا تھا۔۔۔۔ پیارے نادر شاہ عادل نے بھی سفر اختیار کیا۔۔۔کئی بار ان کے انتقال اور کسمپرسی کی خبریں آئیں لیکن غلط ثابت ہوئیں اسی لئے بہت سوچ سمجھ اور تصدیق کر کے لکھ رہا ہوں کہ ملنگ درویش ترقی پسند لکھاری۔۔شہر کے بارے میں ایک کتاب ۔۔بہترین انگریزی فلموں کے ناقد مداح ۔۔۔فٹبال کے کھلاڑی۔۔۔اردو بلوچی کے بہترین امتزاج نادر شاہ عادل بھی مساوات کی بنیادی ٹیم کے پاس پہنچ گئے۔۔۔۔چند باقی ہیں سو وہ بھی تیار ہی بیٹھے ہیں
شاہ جی کی یہ تصویر بڑی اہم ہے اس میں نادر شاہ عادل۔۔۔مرد قلندر استاذی خالد علیگ کے دائیں ہاتھ پر ہیں خالد بھائی کے بائیں ہاتھ پر شبیر صدیقی ہیں۔ ان کے بعد اسلم شاہد مرحوم ہیں۔۔ خالد بھائی کے قدموں میں۔۔۔ میں بیٹھا ہوں۔۔۔میرے ساتھ دائیں ہاتھ پر شبر بھائی مرحوم ہیں۔ شاید یہ مساوات ایمپلائز یونین کے انتخابات کے بعد کی ہے ( شبیر صدیقی صاحب زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں )؛
اب نادر شاہ عادل کے بارے میں کیا لکھوں۔ ہم ساتھ رپورٹنگ کرتے تھے ۔۔۔مزے کی باتیں ہوتی تھیں۔ شاہ جی کے سیکڑوں شاگرد ہیں۔۔۔انہوں نے مساوات کے بعد جہاں بھی کام کیا اپنی غیرت اور قابلیت کی مہر لگا گئے۔ میرے جنگ جانے سے قبل وہ جنگ میگزین میں مقرر ہوئے لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ کیا کرنا ہے تو استعفا جیب سے نکال کر رکھ گئے کہ میں اپنا کام خوب جانتا ہوں ۔۔۔شاہ جی غلط بات نہیں سن سکتے تھے۔۔۔۔اس کی وجہ شاید ان کا شجرہ تھا۔ اردو بولنے والے اسرار عارفی ان کے والد اور حریت کے صحافی تھے اور والدہ بلوچی و فارسی کی شاعر۔۔۔۔دوسرے بھائی امداد علی شاہ پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی تھے اور پیپلزپارٹی کی پالیسیوں پر کڑی تنقید بھی کرتے تھے پھر وہ بھی استعفا دے کر نکل آئے
شاہ جی کی تحریر موتی ہوتی تھی خبر یا موضوع پر ان کی گرفت قابل رشک تھی۔۔۔ ان کے اندازے عموما درست نکلتے تھے چنانچہ جب خالد علیگ شاہ جی میں اسلم شاہد مساوات یونین کے لئے منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے خاص انداز میں کہا ,” ناصر جی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ہم سب منہ پھٹ لوگ ہیں ” یہ درست نکلا سو فیصد۔۔۔
میرا ناول ” سلگتے چنار ” آیا تو احفاظ الرحمن کی طرح نادر شاہ عادل بھی شدید علیل تھے ۔۔۔۔لیکن نہ جانے کس طرح ان تک ناول پہنچا اور دو روز بعد ایڈیٹوریل صفحہ پر بہت تفصیلی مضمون موجود تھا ۔۔۔اسی محبت کے ساتھ جس کا اظہار احفاظ بھائی نے کیا تھا
تو شاہ جی ۔۔۔آپ بھی گئے ۔۔۔پر مجھے یقین ہے کہ جب احفاظ الرحمن آپ سے ملیں گے تو کیا جملہ ہوگا ” ارے شاہ جی آپ بھی آگئے ۔۔۔اب وہاں کون بچا پے۔ عجیب تماشا لگادیا آپ نے ۔۔۔لائیں جلدی فیچر لکھ دیں۔۔۔”
اور شاہ جی بہت بہتر کہہ کر دنیا کی بے ثباتی پر پورے صفحہ کا فیچر ایک گھنٹے میں لکھ کر پیش کردیں گے۔۔پھر شاید بلوچی فلم ” حمل و ماہ گنج” سب کو دکھائیں جس میں ان کی اپنی اداکاری کمال کی تھی۔۔ یہ فلم بلوچوں کی مخالفت کے باعث نمائش کے لئے پیش نہیں ہوئی
کچھ لوگوں نے شاہ جی کی علالت اور آخری دنوں میں اسپتال کی تصاویر پوسٹ کی ہیں میں یہ تصاویر نہیں دیکھوں گا میرے لئے شاہ جی وہی ہیں صحت مند توانا۔۔خوش گو ۔۔۔گردن اونچی کرکے قہقہہ لگانے والے۔۔۔جاندار شان دار۔۔۔انا کے محافظ۔۔ غیرت مند اور مخلص۔۔۔۔۔ شاہ جی ۔۔آپ کے گھر کی دعوتیں یاد رہیں گی ۔۔۔خوش رہیں۔۔بہت تکلیف سے نجات ملی ہے آپ کو ۔ ہمارا کیا پے کچھ آنسو بہا کر پھر کسی دوسرے کام میں لگ جائیں گے