سندھ طاس کا نہری نظام پاکستان کا سب سے بہت بڑا آبی اثاثہ ہے جوکہ 3 بڑی جھیلوں ، 18 بیراجوں، 12 دریائی رابطہ نہروں اور 44 بڑے نہری نظاموں پر مشتمل ہے جن کی لمبائی 44,000 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اتنے بڑے نہری نظام پر اب تک 300 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔
اس نظام کی کمزور ترین کڑی یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا نظام سندھ طاس کے پانیوں پر انحصار کرتا ہے جس کے معاون دریا ملک سے باہر (انڈیا) سے نکلتے ہیں۔ سندھ کے کل طاس کا صرف آدھا علاقہ پاکستان میں ہے، چالیس فی صد انڈیا میں ہے جب کہ بقیہ آٹھ فی صد چین اور چھ فی صد افغانستان میں ہے۔
پاکستان کا تقریباً 95% زرعی رقبہ سندھ طاس میں واقع ہے اور زرعی پیداوار ملک کی جی ڈی پی میں 22% حصہ ڈالتی ہے اور 45 % آبادی کو کام پر لگاتی ہے۔لہٰذا دریائے سندھ کے پانیوں میں کسی بھی قسم کی کمی پاکستان کو غذائی قلت سے دوچار کرسکتی ہے۔
پاکستان کے اندر حالت یہ ہے کہ ہم سندھ طاس کے نہری نظام کے ذریعے اپنے دریائی پانیوں کا 90% دریاوں سے باہرنکال لیتے ہیں لیکن اس پانی کا بہت بڑا حصہ ( 80% ) صرف چار بڑی فصلوں (گندم، چارل، گنا، مکئی) کو پیدا کرنے پر خرچ کر بیٹھتے ہیں جو ملکی جی ڈی پی میں صرف 5% فی صد حصہ ڈالتی ہیں۔
اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ ہم نہری پانی کا بہت بُرا استعمال کرتے ہیں۔ ہماری نہری پانی کی پیداواری صلاحیت ساوتھ ایشیا میں سب سے کم ہے۔مثلاً ایک کیوبک میٹر پانی سے ہم 1/2 کلو چاول پیدا کرتے ہیں جب کہ انڈیا اتنے پانی سے 1.25 کلو چاول پیدا کرلیتا ہے۔ اسی طرح گندم کی پیداوار بھی ہم انڈیا سے آدھی لیتے ہیں۔
سندھ طاس کے نہری نظام کی صلاحیت ناکافی مرمت، کم ہوتے پانی کے ذخیرے اور کمزور محکمانہ اختیار کی کمی کی وجہ سے دن بدن کم ہوتی جارہی ہے ۔ یہ نظام اب زیادہ تر “جہاں ہے، جتنا پانی میسر ہے “ کی بنیاد پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے زیرزمین پانی پر انحصار بڑھا ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زیرزمین پانی کھینچنے والا چوتھا بڑا ملک ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے سیلابی پانیوں کو ذخیرہ کریں، ان سے دریاؤں کی آبی گزرگاہوں کو بھریں، زمینی پانی کو ریچارج کریں بلکہ نہری پانی کی بھی بہتر مینیجمنٹ بھی کریں اور اس کی پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھائیں۔نہری پانی کی موجودہ وارابندی سسٹم کو بہتر کرکے پانی کی کھیت کی سطح مینیجمنٹ کو بہتر بنائیں۔ اپنے کھیتوں کو ہموار کریں اور اریگیشن کے جدید طریقے اپنائیں۔
پاکستان میں اس وقت 45 ملین ایکڑ اراضی کو نہری پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس کو ہمیشہ اوسطاً 25 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ نہری پانی کی تقسیم کا نظام کا حساب کتاب بھی وقت اور حجم کی بنیاد سے ہٹا کر کہ کھیت میں لگی فصل کی حقیقی ضروریات پر استوار کریں ۔ فصلوں کی کاشت سائنسی بنیادوں پر ہو نہ کہ سیاسی فصلیں (گنا، چاول وغیرہ؟) کاشت ہوں ۔ ہر کھیت /فارم کے شروع میں واٹر ٹینکس یاتالاب بنا کر پانی سٹور کرکے بوقت ضرورت استعمال کریں۔ نہروں کے شروع میں (ہیڈ پر) ٹیوب ویل کا پانی اور آخر میں (ٹیل پر) نہری پانی زیادہ استعمال کریں ۔ ضرورت سے زائد آب پاشی کا پانی اور بارش کا پانی گندے نالوں میں بہانے کی بجائے ریچارج ویل (پانی چوس ) کنوؤں سے ریچارج کریں۔