البرٹ پائیک نے اپنے اطالوی الومیناتی ہم منصب جو سی پی متزی نی (Giuseppe Mazzini ) کو اگست 1871 میں ایک خط لکھا تھا جس میں دنیا پر قبضے کی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا تھا ۔ جو سی پی متزی نی اطالیہ میں مافیا کا بانی اور گاڈ فادر تھا ۔ دیگر یہودیوں کی طرح یہ بھی صحافی اور مصنف تھا ۔ البرٹ پائیک کا مذکورہ خط 1977 تک برٹش لائبریری کی زینت تھا بعدازاں اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔ انٹرنیٹ پر برٹش لائبریری سےاس خط کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب وائرل ہے جس میں برٹش لائبریری نے ایسے کسی خط کے وجود سے انکار کیا ہے ۔ برٹش لائبریری سے پوچھے گئے اس سوال میں ایک جادوگری یہ دکھائی گئی ہے کہ خط کی تاریخ غلط درج کی گئی ہے جس کے جواب میں برٹش لائبریری نے معصومانہ جواب دیا ہے کہ اس تاریخ کا ایسا کوئی خط ان کے پاس کبھی نہیں رہا ۔
مذکورہ خط کے مطابق البرٹ پائیک نے بتایا ہے کہ ون ورلڈ گورنمنٹ کے لیے ہم تین عالمی جنگیں برپا کریں گے ۔ روس میں زار کی حکومت کے خاتمے اور یہاں پر ملحدانہ اور مذہب مخالف کمیونزم کا قلعہ بنانے کے لیے پہلی جنگ عظیم برپا کی جائے گی ۔ اس کے لیے برطانیہ اور جرمن میں موجود الومیناتی ایجنٹ ان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اس حد تک پیدا کریں گے کہ جنگ کا ماحول بنایا جاسکے ۔ جنگ کے اختتام پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوگی جو دیگر ممالک میں عدم استحکام اورمذاہب کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی ۔
پائیک لکھتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کو برپا کرنے کے لیے فاشسٹوں اور سیاسی صہیونیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرکے انہیں استعمال کیا جائے گا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں نازی ازم کو تباہ کردیا جائے گا اور سیاسی صہیونیت کو اتنا مضبوط کیا جائے گا کہ فلسطین میں ایک خودمختار یہودی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جاسکے ۔ اسی جنگ کے دوران بین الاقوامی کمیونزم کو بھی اتنا طاقتور بنایا جائے گا کہ وہ عیسائیت (بہ الفاظ دیگر مذاہب ) کو توازن میں رکھ سکے ۔ ایسا اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک آخری سماجی تباہی کے لیے ہمیں اس کی ضرورت نہ پڑے ۔
تیسری اور آخری عالمی جنگ کے بارے میں البرٹ پائیک اپنے خط میں لکھتا ہے کہ اسے شروع کرنے کے لیے سیاسی صہیونیت اور عالم اسلام کے مابین الومیناتی ایجنٹوں کے پیدا کردہ اختلافات کو استعمال کیا جائے گا ۔ اس جنگ کو اس انداز میں منظم کیا جائے گا کہ اسلامی دنیا اور اسرائیل دونوں تباہ ہوجائیں ۔
اب ہم البرٹ پائیک کے خط کے مندرجات ، ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے نفاذ کی تاریخ ، ہیکل سلیمانی کے تیسرے معبد کی تعمیر کی کوششوں اور غزہ کی جنگ کے نقاط کو جوڑیں تو ایک واضح تصویر دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ 2025 سے 2030 کے درمیان اس کا ڈھیلا ڈھالا نفاذ کردیا جائے گا جسے 2050 تک ایک سخت کلیاتی ریاست میں تبدیل کردیا جائے گا ۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے سیاسی دارالحکومت آستانہ کے بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ یہ 2030 تک مکمل ہوجائے گا ۔
تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سرخ بچھڑے سمیت سارے ہی اسباب مہیا ہوگئے ہیں اور بس اب اس کے لیے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار ہے ۔ غزہ کی جنگ کو دیکھیں تو بہت سارے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات غزہ کی جنگ کا ختم نہ ہونا ہے ۔ دوبارہ سے اس بات کو دیکھیں کہ غزہ میں ادویات نہیں ہیں ، غذا نہیں ہے حتیٰ کہ پینے کا پانی بھی نہیں ہے مگر جو چیز وافر مقدار میں اور لاانتہا دستیاب ہے ، وہ ہے اسلحہ اور گولا بارود ۔
اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ امریکا کو افغانستان میں گولا بارود کی قلت کے سبب اسے پاکستان سے لینا پڑا تھا ۔ یوکرین میں کھلی رسد کے باوجود یوکرین کو اس کی قلت کا سامنا رہتا ہے تو پھر یہ غزا میں کیسے وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب حماس خود اپنی فیکٹری میں بنارہی ہے ۔ ایک لمحے کو یہ مان لیتے ہیں مگر اس کے لیے خام مال کی بھی تو ضرورت پڑے گی ، یہ سب کیسے اس کے پاس پہنچ رہا ہے ۔ اسرائیل ، امریکا ، یورپ کسی ایک نے بھی ایک دفعہ فارنزک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ حماس کے پاس موجود اسلحہ کہاں سے لایا گیا ہے ۔ سات اکتوبر کے بعد امریکی سینیٹ میں اس بارے میں ایک کمزور سی آواز ابھری تھی جسے دبا دیا گیا ۔
اب اس برس یا آئندہ برس موسم گرما میں کوروناسے زیادہ خطرناک وائرس کی پیشگوئی دیکھیں اور اس کے نتیجے میں ممکنہ سخت ترین لاک ڈاؤن کو مد نظر رکھیں تو البرٹ پائیک کے خط کے مندرجات کہیں سے بھی پاگل کی بڑ نہیں لگتے ۔
اس سب سے ہم یہ نتائج اخذ کرسکتے ہیں کہ غزہ کی جنگ بند نہیں ہوگی ، اس کا پھیلاؤ مزید ہوگا ، اسرائیل کو زچ کر دیا جائے گا اور نئی جغرافیائی حد بندیاں سامنے آئیں گی ، معاشی مندی کی ایک اور لہر سامنے آئے گی اور اسلامی ممالک میں عوامی بے چینی پیدا کرکے ان میں بھی جغرافیائی تبدیلیاں لائی جائیں گی ۔یہ جغرافیائی تبدیلیاں محض عالم اسلام یا اسرائیل تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک امریکا، روس ، چین اور بھارت جیسے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے ۔ یہ تو وہ نتائج ہیں جو اب تک ہم سمجھ سکتے ہیں ۔ نیو ورلڈ آرڈر کا نفاذ، پوری دنیا کو قابو میں کرنا ، آبادی میں بڑی کمی ، تیسرے ہیکل کی تعمیر وغیرہ وغیرہ پہلے سے ہی کارڈز پر ہیں اور ان میں اب تک تو کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی ہے ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔