ایم کیو ایم پاکستان اور نون لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ ایم کیو ایم قومی اسمبلی کی نشستوں 229، 230 اور 239 پر نون لیگ کی حمایت کرنے پر تیار ہے۔ البتہ ایم کیو ایم پاکستان این اے 242 پر مصطفی کمال کو دستبردار کرنے کے لیے تیار نہیں وہ چاہتی ہے کہ اس نشست سے شہباز شریف دستبردار ہو جائیں۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کو این اے 242 پر مفاہمت کرنا پڑے گی۔ اگر مصطفی کمال اس سیٹ پر مفاہمت نہیں کرتے ہیں تو ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس سیٹ پر شہباز شریف کی پوزیشن مضبوط ہے اور شہباز شریف کے مقابلے میں مصطفی کمال کو دستبردار ہو جانا چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی اور اگر کسی نشست پر نون لیگ اور ایم کیو ایم کے امیدوار ہم نے سامنے ہوں گے تو یہ وسیع تر مفاد میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اثر انداز نہیں ہو گا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو اپنی پچھلی کارکردگی سے متعلق کس طرح مطمئن کرے گی کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان، عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ساڑھے تین سال تک حکومت میں شامل رہی اور اگر عمران خان کی حکومت ناکام تھی تو اس ناکامی میں ایم کیو ایم پاکستان کا بھی ہاتھ ہے اور اسی طرح جب وہ پی ڈی ایم میں شامل ہوئی تو پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں بھی وہ شامل رہی اور اسے اپنے ووٹرز کو اس کا حساب بھی دینا ہوگا۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن 2018 میں زیادہ بہتر تھی جو کہ اب نظر نہیں آرہی۔ 2018 کے بعد عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے کراچی کے عوام نالاں نظر آ رہے تھے اور عمران خان کے ووٹ پر منفی اثر پڑا تھا لیکن اب جب کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ان کا ووٹ بینک 2018 کے مقابلے میں بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان کو ٹی ایل پی سے بھی خطرہ ہے کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹر کا جھکاؤ 2018 کے الیکشن میں ٹی ایل پی کی طرف نظر آیا ہے۔ اگر ٹی ایل پی اس الیکشن میں بھی بہتر انداز میں الیکشن مہم چلاتی ہے تو وہ ایم کیو ایم کے پاکستان کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان، نون لیگ، جمعیت علمائے پاکستان، اور جی ڈی اے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حکومت میں آنے کا راستہ روکا جا سکے۔
جہاں تک جی ڈی اے کا معاملہ ہے تو جی ڈی اے کی پوزیشن بھی 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں اس بار کمزور نظر آرہی ہے کیونکہ جی ڈی اے کے کئی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
اب الیکشن میں دیکھنا یہ ہوگا کہ جی ڈی اے دیہی اور شہری علاقوں میں کس حد تک ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی، اور اس سے ایم کیو ایم پاکستان کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں کہ وہ اپنا چھینا ہوا مینڈیٹ واپس لیں گے اور 2018 کے الیکشن میں جو سیٹیں ان سے چھین لی گئی تھیں وہ ایم کیو ایم پاکستان کو دوبارہ ملیں گی۔
ایم کیو ایم پاکستان کو کم بیک کرنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور بہتر انتخابی حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ وہ آئندہ الیکشن میں صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کر سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں ہرانا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی صوبے میں گزشتہ 15 سال سے برسر اقتدار ہے اور اس وقت سرکاری مشینری میں زیادہ تر افسران اور اہلکار پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں لگائے گئے ہیں جن کی اکثریت بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف زرداری پیپلز پارٹی کی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر سندھ میں حکومت بنائے گی۔
جہاں تک بانی ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو ان کے کہنے پر آزاد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ اب اسکروٹنی بھی مکمل ہو چکی ہے۔
بانی ایم کیو ایم کی جماعت اس وقت یہ سوچ بچار کر رہی ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کو منظر عام پر کب لے کر آئے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ منظر عام پر آنے کے بعد سرکاری مشینری ان کے خلاف حرکت میں آ سکتی ہے اور وہ اس لیے کہ ایم کیو ایم لندن کی سرگرمیوں پر غیر علانیہ پابندی عائد ہے۔
بانی متحدہ کے سپورٹرز اور ووٹرز میں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر دعوے کرتے نظر ارہے ہیں کہ اس بار الیکشن میں جیت بانی متحدہ کی پارٹی کی ہوگی اور ایم کیو ایم پاکستان کو منہ کی کھانی پڑے گی لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
بانی متحدہ کے ووٹرز کا خیال ہے کہ جس طرح ماضی میں ایم کیو ایم بہت بڑے مارجن سے فتح حاصل کرتی آ رہی ہے اسی طرح اس بار بھی وہ فتح حاصل کرے گی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 1993 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری تھا اور اس کے باوجود اس نے لانڈھی کی سیٹ سے ایک لاکھ سے زیادہ وہ حاصل کیے تھے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آپریشن کے باوجود ایم کیو ایم کو ہی جتوانا مقصود تھا اور ان کا مخالف گروپ ان کے خلاف ایک پریشر گروپ کے طور پر بنایا گیا تھا۔
لہذا بانی متحدہ کی جماعت کو ماضی میں بھی آشیرباد حاصل تھا اور اسی لیے وہ اتنے بڑے مارجن سے ووٹ لے رہی تھی اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آشیرباد کے بغیر ان کے امیدوار میدان میں اتر سکیں گے اور اگر اتر بھی گئے تو کیا بڑے مارجن سے تو درکنار اتنے ووٹ بھی حاصل کر سکیں گے کہ وہ کامیاب ہو جائیں۔
بانی متحدہ کی جماعت اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ اگر ان کے امیدوار جیت بھی جائیں تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان یا کوئی اور جماعت جوائن کر لیں۔ لہذا ایم کیو ایم لندن کی قیادت اب بھی یہ سوچ رہی ہے کہ آیا الیکشن میں لڑنا ان کے لیے سیاسی مفاد میں ہے یا بائیکاٹ۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی سیاسی منظر نامہ روز بروز تبدیل ہو رہا ہے اور الیکشن آنے تک کیا صورتحال ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔