لاہور ایک میدانی علاقہ ہے لیکن دریائے راوی پر ربڑ ڈیم بنا کر نہ صرف شہر کی کروڑوں لٹر روزانہ کی پانی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں بلکہ شہر کی رونقوں کو پائیدار بنیادوں پر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر لاہور کی لائف لائن ہے جس کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ صدیوں سے دریائے راوی لاہور کے زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرتا رہا ہے۔ تاہم 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے بعد دریائے راوی کی روانی متاثر ہوئی ہے۔ سنہ 2000 میں انڈیا کی طرف سے دریائے راوی پر تھئن ڈیم کی تعمیر کے بعد تو راوی میں پانی آنا بند ہو چکا ہے جس کی وجہ سے لاہور کی ایکوئفر کا ریچارج بھی تقریباً رُک گیا اور ایکوئفر کی سطح ہر سال 3 فٹ نیچے گرتی جا رہی ہے۔
آزادی کے وقت لاہور میں جو پانی 15 فٹ کی گہرائی پر ملتا تھا اب وہ 150 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ پرانے شہر کی حالت اور خراب ہے جہاں پینے کے لئے مناسب پانی 600 فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ لاہور کے نواحی علاقوں قصور اور رائے ونڈ کا زیر زمین پانی نمکین ہے اورفوری خطرہ ہے کہ اگر لاہور کی ایکوئفر کی سطح اسی طرح گرتی رہی تو ارد گرد کا یہ نمکین پانی اس کی طرف بڑھ آئے گا جو کہ ایک مستقل، مسلسل اور ناقابل واپسی خطرہ ہوگا کیونکہ یہ پانی نہ تو پینے کے قابل ہے اور نہ ہی کسی صنعتی استعمال میں آسکتا ہے۔لہٰذا لاہور کی ایکوئفر کو ری چارج کرکے اس کی سطح برقرار رکھنا یا اس کو بلند کرنے کے انتظامات کرنا وقت کی فوری ضرورت ہے۔
لاہور کی ایکوئفر کا قدرتی ریچارج دریائے راوی سے ہوتا ہے لیکن اس میں اب پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔خریف کے موسم میں مرالہ راوی رابطہ نہر کے ذریعے کچھ پانی راوی کو مل جاتا ہے لیکن ربیع کے موسم میں تو صرف مادھوپور ہیڈورکس (انڈیا) سے رسنے والا یا لیک ہونے والا پانی ہی میسر ہوتا ہے جس کو دریائے راوی پر ایک کشادہ جھیل بناکر زیرزمین پانی کو ریچارج کیا جاسکتا ہے۔ یہ جھیل ربڑ ڈیم کی تعمیر سے بنے گی جس کی بہترین جگہ راوی پر ریلوے پُل سے اوپر / پہلے ہو سکتی ہے تاکہ سیوریج کے پانی سے بھی بچا جا سکے۔
اس علاقے میں دریا کا پیندہ چونکہ ہر تین ہزار فٹ کے بعد ایک فٹ نیچے ہو جاتا ہے اس لئے سات آٹھ فٹ بلند ربڑ ڈیم سے بھی ہزاروں فٹ لمبی پانی کی سطح اوپر اٹھ آئے گی جو کہ دریا میں مسلسل رکی رہے گی اور جذب ہو کر لاہور کی ایکوئفر کو مسلسل ریچارج کرتی رہے گی۔ ربڑ ڈیم کنکریٹ کے مہنگے سخت جان اسٹرکچر کے مقابلے میں کم قیمت ماحول دوست حل ہوگا جو کہ زائد پانی کو اوپر سے گزار دے گا۔
ربڑ ڈیم ایک بہت بڑی ٹیوب ہوتی ہے جسے کسی مضبوطی سے موجود پل یا خاص طور پر ڈیم کے لئے بنائے گئے پختہ ستونوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ اس ٹیوب کو ہوا/ پانی یا دونوں کو اندر بھر کر مطلوبہ بلندی تک پُھلایا جاسکتا ہے اور یہ اپنے پیچھے ڈیم کی طرح پانی کو روک لیتی ہے۔ دریا میں سیلاب یا زیادہ پانی کی صورت میں اس میں سے ہوا یا پانی خارج کر کے اس کو خالی کیا جا سکتا ہے تاکہ سیلابی پانی، مٹی اور کچرہ آگے بڑھ جائے اور پانی کی روانی بہتر ہوتے ہی اس کو دوبارہ ہوا بھر کر پُھلا دیتے ہیں۔
لاس اینجلس شہر کو پانی دینے کے لئے دُنیا کا سب سے پہلا ربڑ ڈیم 1958 میں امریکا میں دریائے لاس اینجلس پر بنا تھا ۔ چائنا کہتا ہے کہ اس نے 2000 سے زیادہ ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت نے بھی کئی ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں ۔ بھارت کے سب سے لمبے گایاجی ربڑ ڈیم کا افتتاح ایک سال پہلے ہی ریاستِ بہار میں ہوا ہے۔ دریائے راوی اور ستلج پر بھی ربڑ ڈیم بنانے کے لئے حکومتِ پنجاب فزیبیلٹی کرا چکی ہے۔ دیکھیں لاہور کی قسمت کب چمکتی ہے۔ستلج پر ربڑ ڈیم بہاولپور کے لئے ہوگا۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں پاکستان جرنل آف سائنسز میں شائع ہونے والے مضمون سے راہنمائی کی گئی۔