الحمد للہ۔۔۔۔۔!!!
صحافتی کیرئیر کو چوبیس سال ہوگئے۔۔۔۔۔یہ مارچ اپریل 1999 کی بات کہ میرے عزیز ترین دوست ملک محمد یونس نے میری انگلی پکڑی اور مجھے روزنامہ صحافت کے نیوز روم میں ڈسٹرکٹ نیوزایڈیٹر جناب فضل حسین اعوان کے قدموں میں جا بٹھایا۔۔۔۔۔انہوں نے میرے کوائف پکڑے اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب طاہر پرویز بٹ کے سامنے جا رکھے۔۔۔۔انہوں نے بڑی ایک نظر میری فائل دیکھی اور انٹرن شپ کی منظوری دیدی۔۔۔۔صحافت و دوپہر میں دو اڑھائی سال گزرے۔۔۔۔بطور ٹرینی سب ایڈیٹر جوائننگ دی۔۔۔۔چھوڑا تو نیوز ایڈیٹر تھا۔۔۔۔دو ہزار تین کے اوائل میں جناب علی احمد ڈھلوں کے شام کے اخبار روزنامہ مقابلہ میں بطور چیف نیوز ایڈیٹر نوکری مل گئی۔۔۔۔۔۔۔وہاں تب جناب تنویر عباس نقوی۔۔۔۔جناب ہمایوں سلیم اور عبدالقدوس منہاس ایڈیٹرز تھے۔۔۔۔۔وہاں ہی عزیز ترین دوست حافظ ظہیر اعوان سے پہلی ملاقات ہوئی۔۔۔۔وہ لاہور پریس کلب کی سیاست میں ایکٹو تھے۔۔۔۔پریس کلب تو دو ہزار سے آنا جانا تھا۔۔۔۔ہم سنئیر صحافی جناب نوید بخاری کے ساتھ کلب جایا کرتے۔۔۔وہ ہمیں چائے پلایا اور پکوڑے کھلایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ مقابلہ میں ہی تھے کہ ایک دن حافظ صاحب کو ناجانے کیا سوجھی کہ پریس کلب کا ممبر شپ فارم لے آئے۔۔۔۔۔۔کہنے لگے اسے ابھی پر کریں اور مجھے دے دیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے وہ فارم لیا اور کلب جمع کرادیا۔۔۔۔تب جناب ارشد انصاری صدر اور جناب میاں عابد سیکرٹری تھے۔۔۔۔۔۔میں نے اسی سال کے وسط میں خبریں جوائن کر لیا اور دو تین بعد ہی نیا اخبار کی لانچنگ کے لیے جناب خالد چودھری کے ساتھ کراچی جانا پڑ گیا۔۔۔۔کراچی میں تھے کہ حافظ صاحب نے لاہور پریس کلب کی ممبر شپ کی خوشخبری سنائی۔۔۔۔مجھے یاد ہے میری غیر موجودگی میں میری پہلی فیس بھی برادرم عابد چودھری نے جمع کرائی تھی۔۔۔دسمبر سے پہلے لاہور واپسی ہو گئی اور پھر کلب کے الیکشن آگئے۔۔۔۔میں پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرنے گیا تو خالد چودھری صاحب بھی مل گئے۔۔۔۔۔میں نے کہا سر کس کو ووٹ دینا ہے۔۔۔۔کہنے لگے ارشد انصاری کو دے دیں۔۔۔۔تو میں نے لاہور پریس کلب کا پہلا ووٹ جناب ارشد انصاری کو کاسٹ کیا۔۔۔۔پھر اگلے سالوں میں حافظ صاحب کے ساتھ سیاسی اٹھک بیٹھک شروع ہو گئی۔۔۔۔ہم جناب پا یاسین کے سیاسی ڈیرے پر بیٹھا کرتے۔۔۔۔وہاں ہی مجتبی باجوہ سمیت کتنے ہی دوستوں سے یارانہ ہوا۔۔۔۔۔دو ہزار پانچ چھ کی بات ہے کہ خبریں میں ہی تھے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے الیکشن آگئے۔۔۔۔مجھے جناب خالد چودھری کا فون آگیا۔۔۔۔کہنے لگے کدھر ہو۔۔۔۔۔میں نے کہا شکرگڑھ۔۔۔۔۔کہنے لگے کل آکر نائب صدر کے لیے کاغذات جمع کرائیں۔۔۔۔۔آپ نے جناب عارف حمید کے ساتھ نائب صدارت کا الیکشن لڑنا ہے۔۔۔۔۔میں نے حکم کی تعمیل کی۔۔۔۔۔۔اسی دوران وہ یونین کے انہی انتخابات میں الیکشن کمیٹی کے ممبر بن گئے۔۔۔۔۔ایک رات مجھے ان کا فون آیا کہ کاپی سے فارغ ہوکر میرے پاس رائل پارک آئیں۔۔۔۔۔میں کوئی گیارہ بجے ان کے پاس پہنچا تو وہاں تنویر عباس نقوی صاحب بھی تھے۔۔۔۔۔کہنے لگے آپ نے الیکشن نہیں لڑنا۔۔۔۔کل کاغذات کا واپس لے لیں۔۔۔۔۔میں نے کہا یہ کیا سائنس ہے۔۔۔۔بولے سائنس نہیں اصول کی بات ہے۔۔۔۔پھر بتایا کہ میں الیکشن کمیشن کا حصہ بن گیا ہوں۔۔۔۔۔آپ میرے امیدوار ہیں۔۔۔۔اگر آپ الیکشن لڑتے ہیں تو میری غیر جانب داری پر حرف آئے گا۔۔۔۔آپ الیکشن لڑلیں یا پھر میں الیکشن کمیثی چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔میں لاجواب ہو گیا اور اگلے دن کاغذات واپس لے لیے۔۔۔۔۔الیکشن ہوا اور جناب عارف حمید بھٹی صدر بن گئے۔۔۔۔پھر وہ مجھے جب بھی ملتے کہتے میں چاہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہوتے لیکن آپ ساتھ ہی چھوڑ گئے۔۔۔۔میں ان سے معذرت کرتا اور بتاتا کہ مجھے خالد چودھری کی اصول پسندی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔!!!!!