ﻭﺭﺟﯿﻨﯿﺎ ﻭﻭﻟﻒ ﻧﮯ ﮐُﻞ ﻧﻮ ﻧﺎﻭﻝ ﻟﮑﮭﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻮﺩﮦ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﮯ، ﮈﺭﺍﻣﮧ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﺎ، ﺩﻭﺳﺘﻮﻓﺴﮑﯽ ﮐﮯ ﻧﻮﭨﺲ ﮐﺎ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮈﺍﺋﺮﯾﺎﮞ ، ﯾﺎﺩﺩﺍﺷﺘﮟ، ﺧﻄﻮﻁ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﭨﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﺍﻟﺒﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺴﺰ ﮈﯾﻠﻮﻭﮮ (1925) ﭨﻮ ﺩﯼ ﻻﺋﭧ ﮨﺎﻭٗﺱ (1927) ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺭﻟﯿﻨﮉﻭ (1928) ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﮨﻢ ﻧﺎﻭﻝ ﮔﺮﺩﺍﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﯾﮏ جگہ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺷﺎﮨﮑﺎﺭ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ اور ﺟﮕﮧ ﻭﮦ ﻟﮑﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻮورجینیا وولف ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺩُﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻘﻮﻕِ ﻧِﺴﻮﺍﮞ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﯽ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﺗﻨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﻣﺜﻞ ﺍﺩﯾﺒﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ورجینیا وولف روزنامچہ لکھا کرتی تھیں ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺍﻣﺮ ﮨﮯ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﭽﮧ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ اکثر ﻣﺮﺩ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﺭﺟﯿﻨﯿﺎ ﻭﻭﻟﻒ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮئی۔اپنے ایک مضمون میں ورجینیا وولف لکھتی ہیں کہ روزِ محشر میں حساب کے بعد تین شخصیات دنیا و جہاں کے مالک کے قریب بیٹھی ہوں گی: ہومر (Homer)، دانتے (Dante) اور شیکسپیئر (Shakespeare)۔ اُس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے ہاں سب سے بڑا اعزاز ان لازوال شعراء کا ہو گا۔ اُن کا یہ بھی مطلب تھا کہ بہشت میں جب درجہ بدرجہ صف بندی ہو گی تو سب سے آگے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اِس دنیائے فانی میں تخلیق کے حوالے سے کوئی بڑا کام کیا ہو: لکھنے والے، موسیقی ترتیب دینے والے، مائیکل انجیلو (Michelangelo) جیسے سنگ تراش اور رِم برانٹتھ (Rembrandt)، ریفیل (Raphael) جیسے مصور۔مشہور برطانوی مصنف ای ایم فورسٹر (E.M.Forster) کی ایک شارٹ سٹوری ہے جس میں ایک نو عمر لڑکا ایک وکٹوریہ پہ بیٹھتا ہے‘ جو اُسے سیدھا اُوپر آسمانوں پہ لی جاتی ہے۔ وکٹوریہ بہشت کے قریب پہنچتی ہے تو نیچے چلتے دریاؤں سے واگنر (Wagner) کی موسیقی کی دُھنیں اُوپر ہوا میں اُٹھتی ہیں۔ پانی میں جنت کی دوشیزائیں تیر رہی ہوتی ہیں اور اُوپر آسمانوں کے دروازے پہ ہومر کا ہیرو ایکلیز (Achilles) لڑکے کا استقبال کرتا ہے اور اُسے اپنی ڈھال پہ اُٹھا لیتا ہے۔ یاد رہے کہ ہومر کی کتاب میں ایک پورا باب ایکلیز کی ڈھال کے تیار کرنے کے بارے میں ہے، کہ دیوتاؤں کا لوہار کیسے آتا ہے اور کن کن چیزوں سے وہ ڈھال تیار کرتا ہے۔اس قصّے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ورجینیا وولف ہو یا ای ایم فورسٹر‘ اُن کا تصورِ بہشت ایک ایسی جگہ ہے جہاں پہ سب سے بڑا اعزاز تخلیقی ذہن رکھنے والوں کا ہو گا۔ورجینیا وولف کو اپنے حساس طبعیت کی وجہ سے ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﮯ ﺩَﻭﺭﮮ ﭘﮍﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﺌﯽ ﮐﺌﯽ ﺭﻭﺯ ﺗﮏ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ 1940ﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺮﻣﻦ ﺟﻨﮕﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﻨﺪﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ جس کا انہیں شدید صدمہ پھنچا کیونکہ اس گھر سے ورجینیا وولف کی بچپن کی بہت سے یادیں وابسطہ تھیں۔ورجینیا نے 28 ﻣﺎﺭﭺ ﺳﻦ 1941ﺀ ﮐﻮ ﻣﺎﯾﻮﺳﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے دریائے اووز میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ انکی لاش بیس روز بعد پانی سے ملی جسے ان کے شوہر نے نذرآتش کر کے راکھ کو گھر کے آنگن میں دفن کردیا۔