ایک بات تو طے ہے کہ جب تک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل جیسی مذہبی شدت پسند اور نسلی منافرت پر مبنی قابض اور غاصب ریاست موجود ہے تب تک خطے میں نہ تو امن ہو سکتا ہے اور نہ حقیقی خوشحالی آ سکتی ہے۔ امریکی اور مغربی یورپی حکمرانوں نے جس طرح صیہونی ریاست کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنی غلامی کا اظہار کیا ہے اس نے مغرب کے انسانی حقوق، قانون اور انصاف کی بالادستی، عوام کی حکمرانی، اقوام متحدہ کے چارٹر جیسے نعروں کی حقیقت کھول دی ہے۔ دنیا پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ تمام اصول اور ضابطے کمزور اقوام کے لیے ہیں لیکن اسرائیل جیسی جنگی مجرم اور دہشت گرد ریاست کے لیے تمام گناہ معاف ہیں۔ اس وقت اسرائیل کیا کر رہا ہے اور فلسطینیوں پر کیا گزر رہی ہے اس بارے میں ہر طرف باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا کی نشریات سے لگے گا کہ ظالم اسرائیل ہی مظلوم ہے، وہ تو دو ہزار سال پہلے یہاں رہتے تھے اور اب دو ہزار سال بعد اپنا حق لینے کے لیے آئے ہیں اور یہ بدمعاش عرب فلسطینی مسلمان ان کی زمین خالی کرنے کے بجائے دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اس بات سے کون واقف ہے کہ ڈھائی ہزار سال بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے یوروشلم کو برباد کیا تھا اور بہت سے لوگوں کو غلام بنا کر لے گیا تھا اور باقی لوگ جان بچا کر بھاگ گئے تھے یا وہیں چھپ گئے تھے، ان لوگوں کے بارے میں کون جانتا ہے کہ وہ کہاں گئے؟ ان کی نسل موجود بھی ہے یا ختم ہو گئی۔
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لفظ semite کی تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ لفظ 19ویں صدی میں ایسے لوگوں کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا جو semitic زبانوں میں سے ایک زبان بولتے ہیں۔ یہ مغربی ایشیا اور افریقہ میں بولی جانے والی زبانوں کی ایک فیملی ہے جس میں عربی، بابل اور نینوا کی اکادی، کنعانی، عبرانی اور ایتھوپیا کی زبانیں شامل ہیں۔ لہٰذا اگر اس لغوی تشریح کے تناظر میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیلیوں سے بڑا اینٹی سمائٹ کوئی نہیں ہے۔ تاہم انیسویں صدی میں اس اصطلاح کو عبرانی بولنے والے یہودیوں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس لفظ کو اسرائیلیوں نے اپنے سنگین جرائم کی پردہ پوشی اور دوسروں پر دشنام طرازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں کسی نے صیہونی اسرائیلیوں کے خلاف کچھ کہا اسے antisemite قرار دے کر مطعون کرنا شروع کر دیا۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کنعان کا علاقہ حضرت ابراہیمؑ کی آمد سے پہلے بھی آباد تھا۔ یہودہ، حضرت یعقوبؑ کے ایک بیٹے کا نام تھا۔ اسی نسبت سے یہودہ کی تعلیمات کو ماننے والے یہودی کہلائے تھے۔ یہودہ کو بعد میں ’اسرائیل‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ اسرائیل کے بارہ بیٹے تھے جو اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے سردار تھے۔ جنہوں نے مل کر مملکت یہودہ یا جوڈیا بنائی تھی۔ لیکن یہ آج کے اسرائیل جیسی بڑی ریاست نہیں تھی بلکہ یہ مختلف قبیلوں کی چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم تھا۔ دوسری جانب حضرت اسماعیلؑ کے بھی 12 بیٹے ہوئے تھے جو اپنے اپنے قبیلوں کے سردار ہوئے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت یعقوبؑ کی اولاد سے جو قبیلے ہوئے ان کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں۔ وہ آپس میں شادیاں بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے سے تجارت بھی کرتے تھے۔ یہ قبائل عراق سے لے کر شمالی افریقہ، سعودی عرب، ایتھوپیا اور یورپ میں بحیرہ روم کے ساحلوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ آج صیہونی قوتیں اپنے مالی، سیاسی اور عسکری مفادات کی خاطر مسئلہ فلسطین کو نسلی یا یہودی مسلم مذہبی تنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ لیونٹ کے علاقے میں بسنے والے یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوتیں کی تھیں جنہیں سختی سے کچل دیا گیا تھا اور بہت سے باغی قبیلوں کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد رومیوں نے صوبہ جوڈیا کا نام تبدیل کرکے سیریا فلسطینا رکھ دیا تھا۔
صیہونیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیلی یہودیوں کو یہ بتایا ہے کہ وہ خدا کی محبوب اور منتخب کردہ قوم ہیں اور دنیا کے دوسرے انسان نما جانوروں سے برتر ہیں۔ مغرور اسرائیلیوں کے دماغوں سے یہ خناس نکالنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا جائے۔ کم از کم اس سے یہ تو معلوم ہو جائے گا کہ کون لوگ اصلی نسلی ابراہیمی قبیلوں سے ہیں اور کون نمرود کی اولاد ہیں؟ شاید اسی وجہ سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ تاریخی شواہد اور ڈی این اے ٹیسٹ کے تناظر دوسری بات یہ کہی جا رہی ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع ایک ایسی لڑائی ہے جس میں بھائی، بھائی کو قتل کر رہا ہے۔
یہ بات اسرائیلی میڈیا پر بھی آ چکی ہے کہ 7 اکتوبر کو ہونے والی ہلاکتوں میں خود اسرائیلی فوج ملوث ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یرغمالی صورتحال سے نمٹنے کے بجائے قتل عام کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تربیت کے مطابق کام کیا اور گاڑیوں میں موقع سے فرار ہوتے ہوئے اسرائیلی شہریوں کو ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔ ٹینکوں سے گولہ باری کرکے ان عمارتوں کو تباہ کیا جہاں القسام بریگیڈ کے جنگجو اور یرغمالی اسرائیلی موجود تھے۔ اپنے ان جرائم کو چھپانے کے لیے نیتن یاہو حماس کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے شمالی غزہ سے ہلاکت خیز بمباری شروع کر دی۔ شاید اسرائیلیوں کو یہ توقع تھی کہ جب غزہ پر وحشیانہ بمباری کی جائے گی تو اطراف کے عرب ممالک اسرائیل پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ جس کے بعد ہم مظلوم بن جائیں گے اور امریکہ اور مغربی یورپی ممالک ہماری حمایت میں فوجیں لے کر آ جائی گے اور پھر یہودی اور عیسائی افواج مل کر مسلم ممالک کو تہس نہس کر دیں گی۔ لیکن پڑوسی عرب ممالک نے اسرائیلی جال میں پھنسنے کے بجائے صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی غزہ سے فلسطینی مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی بلکہ عرب ممالک کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی مچائی ہے اسے ٹھیک بھی اسرائیل کو ہی کرنا پڑے گا اور کوئی عرب ملک غزہ کی تعمیر نو کا خرچہ برداشت نہیں کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ خود فلسطینی بھی اپنا وطن چھوڑ کر جانے پر تیار نہ ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں افراد اپنے گھروں میں ہی لقمہئ اجل بن گئے۔ 15 ہزار سے زیادہ بچوں، عورتوں اور مردوں کی قربانی نے اسرائیل اور صیہونی مخالف عالمی بیداری کی لہر کو جنم دیا ہے اسے دبانے کا انہیں ایک یہی طریقہ نظر آتا ہے کہ لوگوں کی زبان بند کروا دی جائے۔ بکاؤ مغربی میڈیا اور حکومتوں نے اپنی لٹیا خود ڈبو لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ امریکہ میں عوامی غصہ سے یہ نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل کی کشتی میں سوار ہونے والے حکمراں، اسرائیلی لابی، میڈیا اور اس کی حمایت میں قانون سازی کرنے کانگریس اور سینیٹ کے ارکان کو آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں منھ کی کھانا پڑے گی۔ امریکہ میں مجبوری یہ ہے کہ ہے سیاستدانوں کو عوام کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے لیکن اب ان کے لیے اسرائیل پالیسی سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات کا سیدھا جواب دینا مشکل ہو رہا ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ سیاستداں اور میڈیا جن لابیز کا کھاتے ہیں انہیں کا گاتے ہیں۔
اس وقت امریکہ پر قومی قرضہ تقریباً 34 ٹریلین ڈالر ہو چکا ہے جو جی ڈی پی کے تقریباً 122 فیصد کے برابر ہے جبکہ 2000ء میں یہ 50.3 فیصد کے برابر ہوا کرتا تھا۔ گزشتہ 22 سال کے دوران امریکہ نے اسلامی ممالک پر فوج کشی کرکے لاکھوں افراد کا خون بہایا ہے اور کروڑوں افراد کو معاشی بدحالی میں دھکیلا ہے۔ لیکن ڈالر کی طاقت کے باوجود وہ خود دنیا کا سب سے مقروض ملک بن گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ پاکستان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے، اب یہی حال امریکہ کا ہو چکا ہے کہ وہاں کا ہر فرد ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے۔ امریکہ کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باوجود اسرائیل کو مفت کے اربوں ڈالر بھیجنے کی منظوری نے امریکیوں کے غصے میں مزید اضافہ کیا ہے کہ یہاں حالات بگڑ رہے ہیں اور آپ اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ، گولہ بارود اور ڈالر بھیج رہے ہیں۔
امریکہ کا یوکرین پروجیکٹ بھی اب مکمل ناکامی کے گڑھے میں گرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہاں بھی اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچا گیا ہے اور صدر زلنسکی کو اربوں ڈالر کی امداد دی گئی ہے۔ لیکن امریکی اور یورپی اسلحہ بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں، اس کے علاوہ امریکی میڈیا میں صدر زلنسکی کے دوستوں یا فرنٹ مینز کے دبئی میں پرتعیش یاٹس اور اسپین میں بڑی بڑی حویلیاں خریدنے کے بارے میں بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس تناظر میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں ہے جب امریکہ میں بھی اربوں ڈالر کی بدعنوانیوں کے اسکینڈلز بھی جلد ہی منظر عام پر آئیں گے۔ امریکہ پر جو 34 ٹریلین ڈالر کا قرضہ چڑھا ہے اس سے بہت سے امریکی اور یورپی کمپنیوں کے مالکان اور سیاستدان وغیرہ تو ضرور فیض یاب ہوئے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یوکرین کی جنگ امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا پروجیکٹ ہے جس میں چار لاکھ سے زیادہ یوکرینی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں روس پر کیا جانے والا ہر فوجی اور معاشی حملہ ناکام ہوا ہے۔ پورے یوکرین کی بربادی کے بعد اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ روس سے امن معاہدہ کر لیا جائے لیکن یوکرین کا مسخرہ اب بھی ڈالر اور اسلحہ مانگ رہا ہے۔ لیکن اب اسرائیل فلسطین جنگ شروع ہونے کے بعد امریکیوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ امریکہ یوکرین کی جنگ میں اپنا اضافی گولہ بارود پہلے ہی یوکرین میں پھونک چکا ہے لہٰذا اس نے اسرائیل کو اپنے اسلحہ خانوں سے وہ بم نکال کر دینا شروع کر دیے ہیں جو اسے اپنے اسلحہ خانوں میں رکھنا ضروری ہیں۔
امریکہ کے اس اقدام سے یہ لگتا ہے کہ صیہونی قوتیں عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی، دو ریاستی حل اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کی حمایت نہ کرنے کے بیانات میں زیادہ سنجیدگی نہیں ہے۔ بلکہ اسرائیل خطے میں ایک طویل جنگ لڑنے کی تیاریاں کر رہا ہے کیونکہ دو ریاستی حل بھی نسل پرست، دہشت گرد ریاست اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ختم کرنے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ دو ریاستی حل اور 1967ء کی سرحدوں پر واپس جانے کی باتیں پچاس سال پہلے کی گئی تھیں اور یہ آئندہ پچاس سال تک جاری رہ سکتی ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جنگ و جدل سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کا ایک سیاسی حل یہ ہو سکتا ہے کہ اگر اسرائیل میں نسلی و مذہبی منافرت مبنی نظام ختم کر دیا جائے، فلسطینیوں کو جن زمینوں سے بے دخل کیا گیا تھا وہ انہیں واپس کر دی جائیں، آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور یہودیوں کے برابر حقوق دے دیے جائیں تو فلسطین اسرائیل تنازع ہی ختم ہو جائے گا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نوآبادیاتی غاصب اسرائیل ہی ختم ہو جائے گا جسے صیہونی قوتوں نے مشرق وسطیٰ کے تیل اور گیس کے خزانوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے بنایا تھا اور اب بھی ایک فوجی قلعے کی طرح اس کی حفاظت کر رہی ہیں۔
لیکن غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے بعد عالمی بیداری کی جو لہر اٹھی ہے اس نے جنگی تجارت کرنے والوں کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کر دی ہے۔ امریکی میڈیا میں ہی اب یہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ امریکی نوجوان سپاہی اب کسی دوسرے ملک میں جا کر جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہیں حتیٰ کہ انہوں نے اسرائیل کے لیے بھی اپنی جان گنوانے سے انکار کر دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیلیوں نے افریقہ سے کرائے کے فوجی بھرتی کرنا شروع کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت تو پہلے ہی اپنے فوجی بھیجنے کے لیے تیار ہے، لیکن اسرائیل، بھارتی فوجیوں کی خدمات لینے پر آمادہ نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی مذہبی رہنما بت پرستوں کو اپنے ساتھ ملانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ تورات کی تعلیمات کی پاسداری کرنے والے سرکاری ربائیوں ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ان کے حکمرانوں نے فرعون کا طریقہ اپنا لیا ہے اور قرآنی تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ فرعون کے راستے پر چلیں گے وہ اسی کے انجام کو پہنچیں گے۔