(تحریر:حافظ محمد صالح)
قربانی کی حکمت و فلسفہ
ذوالحج کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، یہ اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں حج جیسی بابرکت عبادت کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے اور قربانی کی جاتی ہے۔ لفظ قربانی قرب سے مشتق ہے جس کے معنی ”نزدیک ہونا“ ہے۔قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ شرع میں قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ، طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے حضور خون بہانے (قربانی) سے بڑھ کر محبوب نہیں اور بے شک یہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گی (اور میزان میں تلے گی) اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے بارگاہ خدا میں قبول ہوجاتا ہے۔ سو قربانی خوشدلی سے دیا کرو“۔قربانی اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو انہیں بڑھاپے میں عطا ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور دوسری طرف فرمانبردار صابر و شاکر بیٹا اپنے والد گرامی کی زبان سے یہ اشارہ سن کر کہ اس کے رب نے اس کی جان کی قربانی طلب کی ہے، اسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ قربانی قبول ہوئی مگر بیٹے کی جان بخش دی گئی اور اس کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دیا گیا، چنانچہ آج تک آپ علیہ السلام کا ذکر اور قربانی کی صورت میں آپ علیہ السلام کی یادگار موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔
اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے حکم پر خلق خدا کے لیے بہترین کھانے کا بندوبست کریں۔ قربانی دینے والے ہی حق کی حمایت اور ظلم کی بیخ کنی کے لیے وقت آنے پر تن من دھن وطن اولاد سب کچھ قربان کرسکتے ہیں اور یہی جذبہ قوموں کی باوقار زندگی کا ضامن ہے۔بدترین نظام مغرب نے جو ظالمانہ استحصالی نظام ہم پر مسلط کر رکھا ہے، اس نے غریب کو باعزت زندگی سے محروم کررکھا ہے۔ اشیاءخورد و نوش اتنی مہنگی کردی گئیں کہ اللہ کی نعمتوں کے دروازے عوام پر بند ہیں۔ اسلام کا نام لینے والے حکمرانوں نے اپنے عوام کے منہ سے آخری لقمہ بھی چھین لیاہے۔ رب العالمین کی ربوبیت اوررحمت للعالمین کی رحمت کو امراءنے غصب کر رکھا ہے۔ یہ لوگ اللہ کا پیدا کیا ہوا وافر رزق ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ سٹاک کرتے اور کھلے بازار میں آنے سے روکتے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے آئے دن بھاو بڑھاتے رہتے ہیں۔ جس سے عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جاتے ہیں اور بڑے لوگ اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ قربانی کا شرعی حکم ان انسان نمادرندوں کو مذموم حرکت سے باز رکھنے کا سبق دیتا ہے تاکہ غریب آدمی بھی اللہ کی نعمت گوشت کھاسکے۔ پس اسلامی نظام کو جہاں بھی نافذ العمل کرو گے، ظلم کے اندھیروں میں تمہیں روشنی کی کرن وہیں نظر آنے لگے گی۔ ایک قربانی پر عمل درآمد نے کم از کم تین دن کروڑوں محروم لوگوں کو اعلیٰ کھانا کھلادیا۔قربانی کی کھالوں سے بیشمار رفاہی خیراتی ادارے چلتے ہیں۔ غریبوں یتیموں اور بیواوں کی مالی پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔سرمایہ داروں کے دل سے دولت کی محبت کم اور خالق کی محبت اور خلق پر شفقت کے جذبات بڑھتے ہیں اور یہی انسانیت کا اصل جوہر ہے۔قربانی کی نیت سے ہزاروں لوگ مال مویشی پالتے اور وقت آنے پر اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں۔ اس سے ان کی سال بھر کی روزی کا سامان ہوجاتا ہے۔ اس کی کھال بال اور ہڈیاں قومی آمدنی میں اضافے کا سبب ہیں۔ الغرض جس پہلو سے دیکھا جائے قربانی اپنے اندر دنیا و آخرت کے بے شمار فوائد و فضائل رکھتی ہے۔