سرینگر(مانیٹرنگ ڈیسک ) :جب سے بی جے پی کی ہندوتوا حکومت نے 05اگست 2019کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت غیر قانونی طور پر ختم کردی ،علاقے میں قتل و غارت، بلاجواز گرفتاریوں، تشدد،ماورائے عدالت قتل اورجائیدادیں اور سرکاری ملازمتیں چھیننے کے واقعات سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج بھارتی حکومت کے سفاکانہ، غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو پانچ سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 17خواتین اور 30 کمسن لڑکوں سمیت 907 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سینئر حریت رہنما محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ ان 223کشمیریوں میں شامل ہیں جن کو جعلی مقابلوں اور بھارتی پولیس کی حراست میں شہید کیاگیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں پرامن مظاہرین پر بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گولیوں، پیلٹوں اور آنسو گیس کے گولوں سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں کم از کم 2459افراد شدید زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ ترافراد کو جعلی مقابلوں او محاصرے اورتلاشی کی پرتشدد کارروائیوں کی آڑ میں دوران حراست شہید کیاگیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیا اور بعد میںمجاہدین یا مزاحمتی تنظیموں کے کارکن کا لیبل لگا کر شہیدکیاگیا۔ گرفتار نوجوانوں میں سے زیادہ تر کو بھارتی حکام نے پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتارکیا۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 05اگست 2019سے ہونے والی شہادتوں کے نتیجے میں 69خواتین بیوہ اور 190بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 1124سے زائد رہائشی مکانات اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور 134خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ کم از کم 33خواتین سمیت 24904 افراد کو گرفتار کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے کشمیریوں کی زندگی خاص طور پر معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر بدحال ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس اقدام کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اس کے باشندوں کے لیے ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ہزاروں حریت رہنمائوں اور کارکنوں، مذہبی و سیاسی قائدین، تاجروں ،سول سوسائٹی کے ارکان اور نوجوانوں کو 5اگست 2019کے بعد یا اس سے پہلے گرفتار کیا گیا اور وہ اب بھی بھارت اورمقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔ گرفتارکئے گئے رہنمائوں میںکل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، مظفر احمد ڈار، غلام محمد بٹ، مشتاق الاسلام، امیر حمزہ، مولوی بشیر عرفانی، بلال صدیقی، ظفر اکبر بٹ، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، عمر عادل ڈار، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، محمد شفیع شریعتی، ڈاکٹر حمید فیاض، ایڈووکیٹ زاہد علی، فردوس احمد شاہ، سلیم نناجی، فیاض حسین جعفری، محمد یاسین بٹ، ظہور احمد بٹ، عبدالاحدپرہ، مولانا سرجان برکاتی، شوکت حکیم، معراج الدین نندا، وحید احمد گوجری، محمود ٹوپی والا، فیروز عادل زرگر، دائود زرگر، نور محمد فیاض، انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، بھارتی پارلیمنٹ کے رکن انجینئر رشید اور کئی صحافی شامل ہیں۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں آزادی صحافت کو مسلسل خطرہ ہے جہاں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ 2020میں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بی جے پی حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی نے علاقے میں معلومات تک رسائی کو مزید محدود کر دیا ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق اور قدرتی وسائل چھین لئے ہیںاور اب وہ مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے علاقے میں ہزاروں بھارتی شہریوںاور دیگر غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں۔ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی کی قیادت مقبوضہ جموں وکشمیرسے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے درپے ہے اوراس کی حکومت اپنے ہندوتوا نظریہ کو آگے بڑھا رہی ہے۔ آزادی پسند رہنمائوں اور کارکنوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے جائز مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہارکیاگیاکہ بھارتی حکومت نے اسمبلی میں ہندوئوں کو زیادہ نشستیں دینے کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نئی حلقہ بندیاں کروائیں ۔اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی غیر قانونی تنسیخ کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوںکومعاشی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے لئے بی جے پی حکومت نے درجنوں سرکاری ملازمین کو جھوٹے الزامات پر برطرف کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور مقامی کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدترین بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام رہے ہیں اور وہ استصواب رائے کے مطالبے سمیت اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاکہ بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو خاموش نہیں کراسکتی۔رپورٹ میں کہاگیا کہ بی جے پی حکومت کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی برادری کو مقبوضہ علاقے میں بھارت کے ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے اور اسے کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کو حل کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔