اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) گوادر میں ایک چینی کمپنی کی جانب سے 4.5 بلین ڈالر کے آئل ریفائنری پلانٹ کے منصوبہ کے ساتھ بلوچستان کے حب میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے 10 بلین ڈالر سے زائد کے آئل ریفائنری پلانٹ منصوبہ میں نئی تحریک پیدا کرنے کےلئے پاکستانی حکومت نے آئل ریفائنری پالیسی 2023 کے مسودے کو حتمی شکل دی ہے جس میں متعدد ٹیکس چھوٹ اور مراعات شامل ہیں ۔ ریفائننگ پالیسی دو اجزاءپر مشتمل ہے جس میں ایک موجودہ مقامی ریفائنریز سے متعلق ہے اور دوسرا ملک میں نئی ریفائنریز کےلئے سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔گوادر پرو کے مطابق اس پالیسی میں انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ذریعہ سرٹیفیکیشن ، کسٹم ڈیوٹی، سرچارجز، ودہولڈنگ ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، کوئی دوسرا ایڈ ویلیورم ٹیکس، یا انسٹال کیے جانے والے آلات یا ریفائنری میں استعمال کیے جانے والے سامان کی درآمد پر کسی بھی قسم کی کوئی پیشگی شرط کے بغیر چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔ پالیسی میں انکشاف کیا گیا کہ وفاقی حکومت صوبائی اور مقامی ٹیکسوں سے اسی طرح کی چھوٹ دینے میں سہولت فراہم کرے گی۔ گوادر پرو کے مطابق یہ چھوٹ غیر ملکی ٹھیکیداروں یا ذیلی ٹھیکیداروں کو پاکستان میں کی جانے والی تعمیرات، آپریشنز اور انجینئرنگ کی خدمات کے نفاذ سے متعلق صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں سے دستیاب ہوگی۔ ریفائنریز کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کی ضروریات سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا جو کہ غیر رہائشی افراد (بشمول ٹھیکیدار یا ٹھیکیدار کے ساتھی) کو کی جانے والی مشینری/سامان کی خریداری کی وجہ سے ادا کی جائیں گی۔ گوادر پرو کے مطابق پالیسی کے مسودے کے مطابق یکم جنوری 2023 سے 31 دسمبر 2028 کی مدت کے دوران، قیمتوں کے تعین کے نظام کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی صورت میں، ریفائنریوں کو سابق ریفائنری قیمت میں مروجہ کسٹم ڈیوٹی برقرار رکھنے کی اجازت ہوگی۔ ریفائنریز کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کی ضروریات سے مستثنیٰ قرار دیا جائےگا، اگر 31 دسمبر 2028 کے بعد قیمتوں کا تعین کرنے کا موجودہ طریقہ کار یا قیمتوں کا ایک باقاعدہ نظام لاگو رہتا ہے، تو تیار شدہ مصنوعات کی سابق ریفائنری قیمت پر مروجہ کسٹم ڈیوٹی کے اطلاق کا جائزہ لیا جائےگا۔ 31 دسمبر 2028 کے بعد قیمتوں کے تعین کے نظام کو ختم کرنے کی صورت میں، ریفائنریز اپنی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کےلئے آزاد ہوں گی۔ مندرجہ بالا کسٹم ڈیوٹی کے علاوہ، 10فی صد ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن (IFEM) فریم ورک کے تحت آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو واپس کیا جائے گا۔ او جی ڈی سی ایل کے اہلکار نے گوادر پرو کو بتایا کہ گزشتہ 40 سالوں میں پاکستان میں کوئی نئی ریفائنری نہیں لگائی گئی، جس کے لیے ایک نئے پلانٹ کی ضرورت ہے جو ملک کی پیٹرولیم کی اعلیٰ طلب کو پورا کرنے کےلئے یومیہ 400000 بیرل خام تیل کو پروسیس کر سکے۔ موجودہ ریفائنریز کو اپ گریڈ کرنے سے صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کی نصب شدہ صلاحیت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔گوادر پرو کے مطابق اس وقت پاکستان کی آئل ریفائنریز پیٹرولیم مصنوعات کی سالانہ طلب کا 55 فیصد پورا کر رہی ہیں اور 1 بلین ڈالر کا زرمبادلہ بچا رہی ہیں۔ وہ روزانہ تقریباً 70,000 بیرل مقامی خام تیل اور کنڈینسیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 100,000 سے زیادہ براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں اور قومی خزانے اور جی ڈی پی میں معقول حصہ ڈال رہے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق پالیسی کے تحت، چین اور خلیجی خطے سے آنے والی آئل ریفائنریوں کو گرین لائٹ کرنے کے لیے مراعات کے علاوہ، پاکستانی حکومت پانچ مقامی ریفائنریوں کو اپ گریڈ کرنے پر بھی زور دے رہی ہے، جس کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 10 سے 15 بلین ڈالر کی پیٹرو کیمیکل کے ساتھ 300,000 سے 400,000 بیرل یومیہ کی گنجائش والی اضافی ریفائنری کی بھی ضرورت تھی، جو اس وقت درآمدات کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔