محکمہ پولیس کو تجربات کی بھٹی سے گزرتے برسوں بیت گئے ائی جی سندھ دلشاد نجم الدین سے لے کر راجہ رفعت مختار تک کا سفر خاصہ کٹھن ہے امن و شانتی والے شہر کو بدلتے موسم کی طرح دیکھا ہے میں نے ہمیشہ محکمہ پولیس میں خرابیوں کی بجائے خوبیوں کو دیکھا کیونکہ خرابیاں تو بہت سارے لوگ بیان کر رہے ہوتے ہیں محکمہ پولیس کی تاریخ میں جتنی شہادتیں سامنے ائی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے رات کے سناٹوں میں تارکول کی سیاہ سڑک پر پولیس والے ہی روک کر پوچھتے ہیں کہ کہاں سے ا رہے ہو 40 سال پہلے پولیس رات 11 بجے کے بعد سڑک پر گھومنے والوں کو اوارہ گردی کے الزام میں گرفتار کر لیتی تھی اور برسوں ہو گئے أوارہ گردی کے الزام میں پولیس نے گرفتاریاں کرنی ہی چھوڑ دیں کیونکہ شہر قائد میں لوگ رات جاگنے کے عادی ہو چکے ہیں 50 سے 60 فیصد لوگوں کو صبح سورج جگاتا ہے لیکن فورسز کے لوگ سورج کو جگاتے ہیں اور اسی طرح محکمہ پولیس کے افسران و ملازمین بھی سورج کے ساتھ ہی اپنی ذمہ داریاں نبھانے نکل اتے ہیں بس ایک خرابی جو پالیسی نہیں مرضی ہے جو بھی نئے اعلی افسر اتے ہیں وہ اپنی مرضی لے کر اتے ہیں پالیسی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں محکمہ پولیس کا موجودہ سیٹ اپ درست سمت کی طرف جا رہا ہے کیونکہ راجہ رفعت مختار بطور ائی جی سندھ اچھا کام کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل ائی جی کراچی خادم حسین رند کی زیرو ٹالرنس پالیسی تو چل ہی رہی ہے جرم اور قانون کی جنگ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی عوام کا پولیس سے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کی عزت ابرو جان اور مال کا تحفظ رہے قتل ہوتا ہے تو جلد یا بدیر قاتل پکڑا بھی جاتا ہے ڈکیٹی رہزنی کی وارداتیں ہوتی ہیں تو مقابلے اور گرفتاریاں بھی ہوتی ہیںمحکمہ پولیس میں روزمرہ کے نئے تجربات ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں جبکہ جو بھی ٹھوس فیصلے کیے گئے وہ ہمیشہ کامیاب ثابت ہوئے ہیں اچھے انسانوں کی طرح محکمہ پولیس میں اچھے افسران بھی ہیں جن سے سیب کی سی خوشبو اتی ہے اور وہ شہد سے میٹھے ہوتے ہیں ایک اچھے معاشرے کے قیام کے لیے پریس پولیس اور پبلک کو متحد ہو کر جرم سے لڑنا ہوگااور یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی