انڈین فلم انڈسٹری یعنی بالی ووڈ میں اسی سال دو فلمیں “فائٹر” اور “آرٹیکل 370” ریلیز ہوئی ہیں جنہوں نے اہم قومی واقعات کی تصویر کشی کرنے کی وجہ سے توجہ حاصل ہوئی ہے۔ دونوں فلموں میں پاکستان کی پریمئیر انٹلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کو بالکل اُسی انداز میں پیش کیا گیا ہے جس طرح ہالی ووڈ کی فلموں میں سویت دور کی کے جی بی کو پیش کیا جاتا تھا۔ مجھے ان دونوں فلموں کو نیٹفلِکس پر دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ دستیاب معلومات کی بنیاد پر دونوں فلموں کا مختصر جائزہ یہ ہے:
"فائٹر”:
پلاٹ: یہ فلم ایک افسانوی فوجی ڈرامہ ہے جو پلوامہ حملے اور اس کے بعد کے حقیقی واقعات سے جڑی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ حقیقی واقعات میں تو ابھینندن کا واقعہ بھی اس اس فلم میں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی جگہ دو ایسے پائلٹوں کا ذکر ہے جو بالا کوٹ میں “دہشت گردوں کے کیمپوں” پر حملے کے دوران گرا لیے جاتے ہیں اور پھر ان کو رہا کرانے کے لیے انڈیا ایک کمانڈس ایکشن کرتا ہے۔
فلم انڈیا کی قومی سلامتی کے چیلنجوں کے پس منظر میں ہندوستانی فضائیہ کے دو پائلٹوں کے درمیان دوستی اور رومانس پر مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ انڈین ائر فورس کے افسران کے درمیان کامریڈاری اور قربانی و ایثار کے جذبے کو کافی زیادہ دکھایا گیا ہے۔
اس فلم کو انڈین مارکیٹ اور میڈیا میں ملے جلے ریویوز ملے ہیں، جس میں کچھ نے اس کے ایکشن سیکوینس اور پرفارمنس کی تعریف کی ہے جو کہ ٹام کروز کی فلموں “ٹاپ گن” سے انسپائرڈ لگتے ہیں، جب کہ دیگر ریویز اس کے قوم پرست لہجے اور کہانی سنانے کے دوران الٹرا نیشنلزم پر تنقید کرتے ہیں۔
“آرٹیکل 370”:
پلاٹ: یہ ڈرامہ کشمیر کی پیچیدہ سیاسی ڈائنامکس پر روشنی ڈالتا ہے، خاص طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی پر توجہ مرکوز کرتا ہے جس کی وجہ سے جموں کشمیر کی آئینی طور پر خود مختار حیثیت کو ختم کرکے اسے انڈیا کی ٹیریٹری کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک انٹیلی جنس فیلڈ آفیسر کی اسائنمنٹ کے بعد کے واقعات پر مشتمل ہے جو فلم کے آغاز میں برہان وانی کو ہلاک کرتی ہے۔ اس آفیسر کو اسی وجہ سے سری نگر سے ٹرانسفر کر کے دلی بھیج دیا جاتا ہے جہاں اس کا تعلق انڈین وزیر اعظم ہاؤس کی ایک ایک اعلیٰ اہل کار سے کشمیر میں تبدیلیوں کی وجہ سے بنتا ہے۔ اور یہی تعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ پروڈکشن کے لحاظ سے یہ سارے سیکوئنسز بہت معیاری ہیں لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والے کے لیے یہ فکشن مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس فلم میں نریندر مودی، امِت شا سمیت کئی کشمیری رہنماؤں کے کرداروں کو مختلف اداکاروں نے پیش کیا ہے جو اسے ایک حقیقی فلم بنانے میں مدد دیتی ہے۔
جس انداز سے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی کہانی ایک فکشنل انداز میں پیش کی گئی ہے اس کا حقیقی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا معاملہ انڈین سپریم کورٹ میں سنہ 2019 سے زیرِ التوا ہے، حساس ہونے کی وجہ سے انڈین عدلیہ اس کی سماعت ہی نہیں کر رہی ہے۔
جبکہ فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک پرانی آئینی دستاویز کو جموں کشمیر کے آرکائیوز میں کہیں چھپا دیا گیا تھا جو سنہ 2019 میں جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت میں تبدیلی کا ایک آئینی جواز بنتا ہے۔ تاہم یہ ساری “تاریخ سازی” محض ایک فکشن قرار دیا جا سکتا ہے۔
بہرحال فلم کو اس کے زبردست پروڈکشن کوالٹی اور خاص طور پر اہم اداکاراؤں کی باکمال پرفارمنس کی وجہ سے بہت زیادہ سراہا گیا ہے۔ بعض فلم ریویرز اسے ایک معلوماتی فلم کے طور پر بیان کر رہے ہیں جو کشمیر کی سیاست کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ میری رائے میں کچھ سچ بھی ہے اور کچھ پراپیگنڈا بھی۔
2024 کے انتخابی سال میں ان فلموں کی ریلیز کے رجحان اور وقت کے حوالے سے، سینما کے لیے سیاسی جذبات کی عکاسی کرنا اور ان پر اثر انداز ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حب الوطنی کے موضوعات والی فلمیں ووٹروں کو گمراہ کرسکتی ہیں اور سیاسی طور پر اہم اوقات میں رائے عامہ کو ممکنہ طور پر متاثر کرسکتی ہیں۔
سنہ 2024 کے انتخابات پر اس طرح کی فلموں کا اثر بحث کا موضوع رہا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بیانیہ کی تشکیل اور نظریات کو تقویت دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ دونوں فلمیں بی جے پی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کرتی ہیں خاص کر پلوامہ حملے کو جس کی بدولت اس سیاسی جماعت کو سنہ 2019 کے انتخابات میں لینڈ سلائیڈ وکٹوری ملی تھی۔
جہاں تک جنوبی ایشیا میں علاقائی اثرات کا تعلق ہے، اس طرح کی فلمیں عوامی تاثرات اور گفتگو پر گہرا اثر ڈالتی ہیں، خاص طور پر ان خطوں میں جو پیش کیے گئے واقعات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ وہ علاقائی سیاسی ماحول کو ممکنہ طور پر متاثر کرتے ہوئے قومی شناخت، سلامتی اور حکمرانی کے بارے میں جاری گفتگو کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ فلمیں سماجی و سیاسی مسائل کی عکاسی کر سکتی ہیں اور عوامی بحث میں گفتگو کو متاثر کر سکتی ہیں، کیونکہ وہ بالآخر فنکارانہ اظہار کی ایک شکل ہیں اس لیے فلم سازوں کی اس فکشنل تخلیقی آزادیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں تنقیدی نظر سے دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔
انڈیا میں الیکشن سال کے دوران اس طرح کی فلموں کا ریلیز کیا جانا ان کا اسٹریٹجک استعمال ہوسکتا ہے، جس کا مقصد عوام کے بڑھتے ہوئے قوم پرست جذبات اور سیاسی سوچ کو ایک مخصوص ذہنی سوچ کو تشکیل دینا ہے تاکہ نریندر مودی کو مزید فائدہ پہنچ سکے۔ اس لحاظ سے ان فلموں کو بی جے پی کی الیکشن کمپین کا ایک حصہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا۔