مدینہ منورہ کی فضا سوگوار ہے۔ کیوں کہ شہر مقدس میں بڑی شخصیات کی وفات کا اعلان کرنے والے سوشل میڈیائی صفحے "وفيات المدينة المنورة” نے اعلان کیا ہے کہ
"ہم دکھی دل کے ساتھ آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ حجاج و معتمرین کے خادم حاجی اسماعیل الزعیم ابوسباع کا انتقال ہوگیا ہے۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔ ان کی نماز جنازہ مسجد نبویؐ میں ادا کی جائے گی۔”یہ پوسٹ کل شیئر ہوتے ہی عرب دنیا کے سوشل میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ آخر یہ بابا کون تھے، جن کے لیے مدینہ منورہ کا ہر دل دکھی اور آنکھ اشکبار ہے۔ ہم نے اس خوش نصیب شخص پر تقریباً تین برس قبل ایک تحریر لکھی تھی پہلے وہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے بعد اس حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہیں۔”ویسے تو رسول اقدسؐ کے مقدس شہر مدینہ منورہ کا ہر باسی سخاوت کا پیکر ہے۔ کیوں نہ ہو کہ یہ بنی نوع انسان کی سب سے سخی شخصیت کا مسکن و مدفن ہے۔ لیکن حاجی اسماعیل الزعیم ابو السباع کی سخاوت کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے 44 برس سے زائرینِ مدینہ کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ بابا جی کی عمر 96 برس ہے۔ مدینہ منورہ ان کا مسکن اور یہاں کے زائرین کی چائے سے تواضع کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ یہ سلسلہ 1982ء سے جاری ہے۔
بابا جی حاجی اسماعیل الزعیم کے سامنے تھرماس اور پیالوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ جو بھی سامنے سے گزرتا ہے، اسے چائے پیش کرتے ہیں۔ ایک تو مدینہ منورہ کا قہوہ، پھر اس میں ادرک اور دیگر لوازمات ڈالنے سے ذائقہ مزید لاجواب۔ چائے کے ساتھ وہ مختلف اقسام کی کھجوریں بھی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ چائے وہ خود اپنے ہاتھوں سے پیالوں میں بھرتے ہیں۔ اس دوران مختلف آیات کی تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں۔
بی بی سی العربی نے بابا جی پر ایک ڈاکومینٹری چلائی ہے۔ حاجی اسماعیل کا کہنا ہے کہ میں روزانہ 50 تھرماس میں چائے تیار کرتا ہوں۔ پھر پیالوں کے ساتھ یہ تھرماس ایک ہتھ گاڑی پر لاد کر گھر سے نکلتا ہوں۔ سارے اہل مدینہ بابا جی کو جانتے ہیں اور انہیں "ابوالسباع” کی کنیت سے پکارتے ہیں۔ مدنی روایات کے اس امین بزرگ کے حق میں دعا بھی کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ انہیں صحت کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائے۔ ایک مدنی شہری کا کہنا ہے کہ بابا جی کو شہرت کی کوئی طلب نہیں، یہ بس سعادت سمجھ کر خدمت بجا لاتے ہیں۔ بابا جی مختلف مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ اکثر وہ مسجد قباء کے راستے میں قہوہ پلانے بیٹھ جاتے ہیں اور نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کا ان کے گرد ہجوم لگ جاتا ہے۔
بہت سے لوگ تو ان کی اس مخصوص چائے کے عادی سے ہوگئے ہیں۔ وہ چائے خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔ اخلاص کی برکت یا کئی دہائیوں کا تجربہ کہ ان کے ہاتھ کا ذائقہ بہت ہی عجیب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو دینے میں جو لذت ہے، وہ کسی چیز میں بھی نہیں۔ایک مدنی شہری کا کہنا ہے کہ میں حاجی اسماعیل کو بچپن سے یہی کام کرتے دیکھ رہا ہوں، خدا انہیں برکتوں سے نوازے۔ شیخ اسماعیل کا اصل تعلق انبیائے کرامؑ کی مقدس سرزمین شام سے ہے۔ وہ نوجوانی میں سعودی عرب آئے۔ پہلے مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ بعد میں مدینہ منورہ آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اہل مدینہ اور بالخصوص زائرین کی خدمت کا یہ سلسلہ انہوں نے 1982ء میں شروع کیا تھا، جو ان کی وفات سے قبل بیمار ہونے تک جاری رہا۔
شیخ اسماعیل الزعیم مسجد قباء سے قریبی علاقے جادۃ کے ایک پرانے گھر میں مقیم تھے۔ مدینہ کے صحافی محمد وائل الحنبلی کا کہنا ہے کہ مجھے طویل عرصہ شیخ کے گھر میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ یہ جمادی الاولیٰ سن 1420ھ کی بات ہے۔ وہ عجیب ہی انسان تھے۔ میں ان کے ساتھ بیتے لمحات کو نہیں بھلا سکتا۔ ان جیسا تقویٰ کسی میں نہیں دیکھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر رب کے حضور گڑ گڑاتے رہتے۔ ان کی عادت یہ تھی کہ وہ صبح سے دوپہر تک زائرین کے لیے مشروبات کی تیاری میں لگ جاتے اور پھر نماز ظہر پڑھ کر تھرماس اور دیگر اشیاء لے کر نکل جاتے۔ ان کے پاس ہر قسم کی چائے ہوتی۔ شوگر والوں کے لیے الگ اور عام لوگوں کے لیے الگ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف جڑی بوٹیوں کی پہچان کے بھی ماہر تھے اور انہیں اپنی چائے میں استعمال کرتے تھے۔ ان کی یہ ڈیوٹی نماز عصر تک جاری رہتی۔ اذان عصر کے ساتھ اپنا سامان سمیٹ کر گھر واپس آجاتے۔
محمد وائل کا مزید کہنا تھا کہ کبھی کبھار وہ اپنی چائے کی ریڑھی لے کر مسجد نبویؐ شریف کا رخ کرتے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر زائرین مسجد نبویؐ کی خدمت میں جت جاتے۔ یہ سلسلہ 40 سال سے زیادہ عرصہ چلتا رہا۔ انہوں نے مزید کہا "یہ پیارے چچا بہت اچھے آدمی تھے، میں نے اپنی زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا ہے اور میں نے تعریف یا انعام کی توقع کیے بغیر ان کی خدمت کی لگن دیکھی ہے۔ انہیں ہمارے نبی کریمؐ سے شدید محبت تھی، اسی شدید محبت نے انہیں حضورؐ کے مہمانوں کی عزت وخدمت کرنے پر مجبور کیا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے: "اگر میں اپنے محبوبؐ کے شہر آنے والوں کی خدمت نہ کروں تو میرے دل کو سکون نہیں ملے گا۔”
مدینہ منورہ کے تمام بڑے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے ان کی وفات پر سوگ کا اعلان کیا ہے۔ "اسامہ الحربی” نے تبصرہ کیا ہے: "شام کے شیخ اسماعیل الزعیم 96 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ انہوں نے 40 سال مہمانانِ رسولؐ کی خدمت کرتے ہوئے گزار دیئے۔ وہ ان کی ایسی ہی عزت کرتے تھے، جیسے وہ ان کے گھر میں مہمان ہوں۔” انہوں نے مزید کہا: "خدا اس مسکراتے چہرے پر رحم کرے۔”ادہم حاج احمد لکھتے ہیں: "ابو سباع الحموی، مدینہ کے رہنے والے اور جس نے اپنی زندگی کا نذرانہ اس کے زائرین کی خدمت کے لیے پیش کیا، وہ انتقال کر گئے، حق تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔” ایک اور صارف نے کہا: "اے خدا، اپنے بندے کو اپنی وسیع رحمت سے ڈھانپ لے: اسماعیل سردار ابو سباع۔ انہوں نے مزید کہا: "الحیصہ کا ذائقہ اب بھی میرے منہ میں ہے، جسے وہ ظہر کی نماز کے بعد حرم کے بازاروں سے نکلتے وقت باب السلام کے پاس تقسیم کیا کرتے تھے، خدا اسے جنت کی نہروں سے پلائے اور پھلوں سے کھلائے۔”