لاہور( بیورو رپورٹ )چیف ایگزیکٹو افسر پاکستان ریلویز عامر علی بلوچ نے کہا ہے کہ ملت ایکسپریس واقعہ پر مسافر کے ساتھ ہیں، ہاتھ اٹھانے پر کانسٹیبل کو سخت ترین کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات جاری ہیں، حتمی نتیجہ آنے تک قیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔ عامر علی بلوچ نے کہا کہ ڈی آئی جی ریلوے پولیس ساؤتھ زون کی سربراہی میں واقعے کی انکوائری جاری ہے۔ انکوائری رپورٹ تین روز میں وزارت ریلوے میں جمع کروا دی جائے گی اور میڈیا سے بھی شیئر کی جائے گی۔ چیف ایگزیکٹو افسر ریلوے نے کہا کہ کسی مسافر کے ساتھ ناروا سلوک بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مسافر ہمارا قیمتی ترین اثاثہ ہیں، اگر ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو ریلوے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔دریں اثناء ڈی آئی جی ریلوے ساؤتھ زون عبداللہ شیخ کی سربراہی میں قائم کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے سی ای او کو اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ کانسٹیبل کے کال ریکارڈ، اسٹیشن پر اس کی حاضری اور عینی شاہدین کی شہادتوں سے مریم بی بی کے ریل گاڑی سے گرنے یا چھلانگ لگانے کے وقت مذکورہ کانسٹیبل کی حیدرآباد میں موجودگی پائی گئی ہے جبکہ خاتون کی نعش چنی گوٹھ میں ملی ہے جو ملتان ڈویژن میں واقع ہے۔آئی جی ریلوے نے ڈی آئی جی ریلوے ساؤتھ کو کیس کا ہر ممکن زاویے سے جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ اس ضمن میں چیئرمین ریلویز کو بھی پیش رفت سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا جا رہا ہے۔دریں اثناء ریلوے ذرائع کے مطابق ملت ایکسپریس میں پولیس اہلکار کے تشدد کا نشانہ بننے والی مریم کی موت پر ریلوے کے موقف اور واقعات کی ترتیب سے نئے تضادات سامنے آگئے۔پولیس حکام کےمطابق جس پولیس اہلکار نے مریم کو تشدد کا نشانہ بنایا وہ حیدرآباد اسٹیشن پر ہی اتر گیا تھا، جس کا ریکارڈ روزنامچے میں درج ہے۔دوسری طرف ساتھ سفر کرنے والے بھتیجے کا کہنا ہے کہ مریم پر تشدد حیدرآباد اسٹیشن گزرنے کےبعد اگلی صبح بہاولپور اسٹیشن سے ذرا پہلے کیا گیا۔پراسرار طور پر ہلاک ہونے والی مریم کے لواحقین کو مقدمے کے اندراج میں بھی پریشانی کا سامنا ہے۔فیصل آباد پولیس نے یہ کہہ کر مقدمہ درج کرنے سے معذرت کر لی کہ لاش بہاولپور سے ملی ہے۔مرحومہ کے بھائی نے اندراج مقدمہ کےلیے بہاولپور پولیس کو درخواست دے دی، جس میں کہا گیا ہے کہ کانسٹیبل میر حسن اور 2 نامعلوم ملزمان نے مریم سے چھیڑ چھاڑ کی، تشدد کا نشانہ بنایا اور چلتی ٹرین سے دھکا دے دیا۔مرحومہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں میڈیکو لیگل افسر کے اضافی تبصرے نے بھی معاملہ مشکوک بنا دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں صرف موت کی وجہ بتانے کے بجائے، ایک قدم آگے بڑھ کرموت کو حادثہ بھی قراردے دیا۔