کیمبرج شائر:
برطانوی سائنسدانوں نے یوگینڈا کے گھنے جنگلات میں سبز پتوں پر رہنے والے انتہائی نایاب ٹڈے کی ایک نئی نوع (species) دریافت کرلی ہے جسے ’فلوجس کیبالینسس‘ (Phlogis kibalensis) کا نام دیا گیا ہے۔
یہ نوع اتنی نایاب ہے کہ اس سے ملتی جلتی نوع کا ٹڈا پہلی بار 1969 میں دیکھا گیا تھا۔
کیمبرج، برطانیہ میں اینجلیا رسکن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلون ہیلڈن کی سربراہی میں یہ دریافت مغربی یوگینڈا کے ’کیبالی نیشنل پارک‘ میں ایک بارانی جنگل سے ہوئی ہے جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’زوٹیکسا‘ میں بیان کی گئی ہیں۔
ان تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ ٹڈے کی یہ نئی قسم چمک دار دھات جیسی دکھائی دیتی ہے جس کے سر اور اردگرد کی جگہ پر سفید دھبے نمایاں ہیں۔
یہ دوسرے ٹڈوں سے بہت چھوٹا ہے جس کی لمبائی عام گھریلو مکھی جتنی، یعنی صرف 6.5 ملی میٹر ہے۔ البتہ اس کی ٹانگوں اور پروں کی ساخت واضح طور پر ٹڈوں جیسی ہے۔
ان تمام خصوصیات کے علاوہ ’فلوجس کیبالینسس‘ کی اہم انفرادیت اس کے تولیدی اعضا ہیں جو خردبین سے دیکھنے پر چھوٹے چھوٹے پتوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
تولیدی اعضا کی یہی ساخت، ٹڈوں کے ’فلوجس‘ خاندان کی دوسری انواع میں بھی دیکھی گئی ہے۔
ان ٹڈوں کی عمومی غذا پودوں کا رس (sap) ہے جسے یہ ان کے فلوئم (باریک شاخوں جیسی نالیوں) سے براہِ راست چوستے ہیں۔
جنگل میں رہنے والی مکڑیاں، بھنورے، جنگلی پروانے اور پرندے بھی ان کی تاک میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان ٹڈوں کو ہڑپ کرجاتے ہیں۔
ڈاکٹر ایلون کا کہنا ہے کہ یوگینڈا میں بارانی جنگلات کی بے رحمانہ تباہی سے یہ ٹڈے اب صرف ایک چھوٹے سے علاقے میں محدود رہ گئے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ شاید اسی طرح کی دوسری نایاب انواع اپنے دریافت ہونے سے پہلے ہی مکمل ختم ہوگئی ہوں گی۔