یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کی ڈیری بیف پروجیکٹ ٹیم کے زیر اہتمام اور یونیورسٹی آف میلبورن، آسٹریلیا کے تعاون سے منعقدہ ’’سندھ لائیو اسٹاک فورم‘‘ کی ورکشاپ ٹنڈوجام ( بیورورپورٹ ) سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا ہے کہ پاکستان میں 80 لاکھ سے زائد کسانوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنے سے وابستہ ہے اور اس شعبے کی سالانہ ترقی صرف 4 فیصد ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز ڈائریکٹوریٹ آف ایگریکلچر ریسرچ سندھ ٹنڈوجام میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کی ڈیری بیف پروجیکٹ ٹیم کے زیر اہتمام اور یونیورسٹی آف میلبورن، آسٹریلیا کے تعاون سے منعقدہ ’’سندھ لائیو اسٹاک فورم‘‘ کی فائنل ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر مری نے کہا کہ 2020 میں لائیو اسٹاک کی صنعت نے مجموعی زراعت میں 60.6 فیصد اور جی ڈی پی میں 11.7 فیصد حصہ ڈالا۔ لھٰذیٰ زندہ جانوروں اور مویشیوں کی مصنوعات کی تجارت کو زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ زرعی یونیورسٹی کے ماہرین مقامی مویشیوں کی نسلوں کے تحفظ پر کام کر رہے ہیں اور اینیمل پراڈکٹ ٹیکنالوجی، ویلیو چین، اورذیلی ڈیری مصنوعات پر نئے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ اگرچہ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، لیکن فی جانور کی دودہ کی پیداوار کم رہی ہے، 24 ملین گائے اور بھینسوں سے سالانہ 57 ملین ٹن دودھ پیدا ہوتا ہے، جو اوسط سالانہ ہے۔ پیداوار 1.62 ٹن فی جانور ہے۔ ورکشاپ کے دوران ڈیری بیف منصوبے کے پروجیکٹ لیڈر ڈاکٹر ڈیوڈ میک گل نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکاء سے خطاب کیا اور فورم کے مقاصد، ڈیری بیف پروجیکٹ کی توسیع اور تحقیق کے تحقیقی نتائج اور اثرات کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر حمیرا اقبال، پراجیکٹ مینیجر نے پراجیکٹ کے مقاصد کا مجموعی جائزہ فراہم کیا اور اے ایس ایل پی دونوں فیز اور خاص طور پر سندھ میں ڈیری بیف پراجیکٹس میں کام کرنے والے ائ سی آئی اے آر کا تاریخی پس منظر پیش کیا۔ لائیو اسٹاک ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ سندھ کے ڈئریکٹر جنرل ڈاکٹر ارشد علی کلہوڑو اور مختلف سرکاری و نجی تحقیقی اداروں اور چھوٹے کسانوں نے پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر حافظ عبدالعزیز، ٹریننگ منیجر، ڈاکٹر اعجاز کمبھر اور ڈاکٹر صوبیہ مجید، صوبائی کوآرڈینیٹرز (سندھ) نے ورلشاپ کے انعقاد میں سہولیات فراھم کیں۔