اسلام آباد ( نیٹ نیوز)
سیاہ چشمہ لگائے اپنی گاڑی کے سامنے موٹر وے پولیس کے دو اہلکاروں کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹ سٹار شاہد آفریدی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان میں موجود ہائی ویز کافی اچھی ہیں اس لیے یہاں حد رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونی چاہیے،اپنی ٹویٹ میں آفریدی نے نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس کے اہلکاروں کی پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف بھی کی۔ موٹر وے پولیس نے اگرچہ شاہد آفریدی کے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ والے ’عاجزانہ مشورے‘ پر تو کوئی ردعمل نہیں دیا مگر آفریدی کی ٹویٹ کے پہلے حصے کے جواب میں لکھا ’حوصلہ افزائی کا شکریہ۔‘
مگر بظاہر شاہد آفریدی اور موٹر وے پولیس دونوں اپنی ٹویٹس میں یہ بتانا بھول گئے کہ اس تعریف اور جوابی تعریف کی وجہ کیا ہے۔تو جناب ہوا کچھ یوں کے دو روز قبل شاہد آفریدی این-فور موٹر وے پر دورانِ سفر اوور سپیڈنگ کے باعث اپنا چالان کروا بیٹھے اور تصویر میں نظر آنے والے اہلکار وہی ہیں جنھوں نے 167 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی ’بھگانے‘ پر شاہد آفریدی کا چالان کیا تھا،پولیس ترجمان کو اگرچہ جرمانے کی رقم کا علم تو نہیں تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ لگ بھگ دو ہزار کے قریب تھی۔اپنی ٹویٹ میں شاہد آفریدی نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر معذرت بالکل نہیں کی اور یہی بات چند صارفین کو کچھ بھائی نہیں،بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق
ایسی ہی ایک صارف رمشہ رئیس نے لکھا ’لالہ پولیس والوں کے مزے ہیں، چالان بھی کر لیا اور فری میں تصویر بھی بنا لی آپ کے ساتھ۔‘جہاں شاہد آفریدی کو دیکھ کر ان کے مداح انھیں دعا سلام بھیج رہے ہیں اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو بہت ہلکے پھلکے انداز میں ان کی توجہ قانون کی پاسداری پر بھی مرکوز کروا رہے ہیں۔
ثنا خان نے لکھا ’لالہ یہ موٹر وے ہے کرکٹ گراؤنڈ نہیں۔‘
عامر نے لکھا ’لالہ کے لیے 120 پلس سٹرائیک ریٹ نارمل جیسا ہے۔‘
ڈاکٹر سید سعید نے شاہد آفری کو بتایا کہ یہاں برطانیہ میں پاکستان سے بہتر سڑکوں کے باوجود حد رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہے۔ آئیے شکایت کیے بغیر جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس کے قوانین کو مانیں
ماہم گیلانی نے شاہد آفریدی سے کہا کہ لالہ ڈرائیونگ کرنے میں اور چھکے لگانے میں فرق ہوتا ہے۔فرح نامی ٹوئٹر صارف نے بھی شاہد آفریدی کی سپیڈ بڑ ھانے کی تجویز پر انھیں بتایا کہ موٹر وے پر سپیڈ اچھے روڈ کو دیکھ کر نہیں بلکہ حفاظت کے پیش نظر ہوتی ہے۔ساتھ ہی فرح نے ٹریفک کے ایک اور قانون کی طرف اشارہ دلایا جس کی بطور پاکستانی لوگ کم ہی پاسداری کرتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ ہم میں سے کتنے لوگ اصل میں سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں، یا پھر بچوں کے لیے مناسب کار سیٹس ہوتی ہیں۔