لندن (کے ایم ایس)برطانوی اخبار” دی اکانومسٹ ”نے اپنے تجزیے میں بھارت کے اندر دو مختلف بلاکوں میں بڑھتی ہوئی تقسیم کو اجاگر کرتے ہوئے کہاہے کہ جنوبی بلاک خوشحالی اور ترقی کا سفر طے کر رہا ہے جبکہ شمالی بلاک پیچھے رہ گیا ہے جس سے بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق شمالی بلاک ہندی زبان کے حق میں پالیسیاں بنانے، ہندو شناخت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی حمایت کرتاہے۔ اخبارنے لکھاہے کہ نریندر مودی حالیہ تاریخ میں بھارت کے سب سے طاقتور وزیر اعظم ہیں جن کی ترجیحات میںاقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ہندو قوم پرستی کا فروغ شامل ہے۔اس کے برعکس بھارت کے جنوبی علاقے میں مودی کی پارٹی کے لیے بہت کم حمایت پائی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی شمال کے معاشی طور پر پسماندہ، گنجان آباد، دیہی اور ہندی بولنے والے علاقوں پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ تقسیم آئندہ انتخابات میں ایک اہم عنصر ہوگی۔طویل مدت میں یہ تقسیم ایک خطرناک صورتحال کا باعث بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے اور بھارت کی متحد ہ منڈی غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ جغرافیائی تقسیم اکثر قوموں کی ترقی کی رفتار پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ بھارت کی 28ریاستوں میں سے جنوبی بلاک میں آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ،تامل ناڈو اور تلنگانہ آتے ہیں جومجموعی آبادی کے 20 فیصد پر مشتمل ہیں۔یہ ریاستیں شہری آباد کاری، خوشحالی، موثر حکمرانی، تعلیم اور جائیداد کے حقوق کوفروغ دیتی ہیں۔ جنوبی بلاک نے انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیا ہے اور ایک جدید ترین مالیاتی نظام تیار کیا ہے۔ 1993کے بعد سے بھارت کی جی ڈی پی میں جنوب کا حصہ 24%سے بڑھ کر 31%ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ کار کاروباری صلاحیت کے باعث جنوب کی طرف راغب ہوتے ہیں۔جنوبی بلاک الیکٹرانک ریونیو میں 46%، آئی ٹی سروسزمیں 46% اور صنعتی ریونیو میں 66%حصہ ڈالتا ہے۔ یہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عالمی آڈیٹرز، وکلائ، ڈیزائنرز، آرکیٹیکٹس اور دیگر پیشہ ور افرادکے79% رہتے ہیں۔ اس کا سیاسی منظر نامہ شمال سے کافی مختلف ہے جہاں مودی کی بی جے پی مضبوط ہے۔بی جے پی کو2019کے انتخابات میں جنوب میںصرف 11%ووٹ 10فیصد پارلیمانی نشستیں ملیں۔ ضروری نہیں کہ مودی کی انتخابی کامیابیاں اصل قومی مینڈیٹ میں تبدیل ہوجائیں۔ یہ جغرافیائی تقسیم بھارت کے اتحاد کے لیے خطرہ ہے۔یہاں تک کہ جنوبی بلاک کو 2026 کے بعد بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب پارلیمانی حلقوں کی تشکیل نو ہو گی۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ بی جے پی جنوب کی خواہشات کے برعکس ہندی کو قومی زبان کے طور پر مسلط کرے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔