سرینگر(نمائندہ خصوصی)غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں5اگست 2019کے بعد بھارت کی ہندوتوا حکومت کی طرف سے مسلط کردہ فوجی اور پولیس محاصرے کے باعث لوگوں کو بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں مقبوضہ علاقے میں بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو اجاگرکیاگیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے اس عرصے کے دوران 17خواتین سمیت 859کشمیریوں کو شہید کیا ۔ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو نام نہاد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کی آڑ میں جعلی مقابلوں میں اور ماورائے عدالت قتل کیاگیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بہت سے متاثرین کو ان کے گھروں سے اٹھانے کے بعد مجاہد تنظیموں کے کارکن ہونے کا جھوٹا الزام لگایاگیا۔ان ماورائے عدالت قتل کے نتیجے میں 67خواتین بیوہ اور 184بچے یتیم ہو گئے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ حریت قیادت، سیاسی کارکنوں، خواتین، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، طلباء اور کمسن لڑکوں سمیت کم از کم 23ہزار210افراد کو گرفتارکیاگیا۔ بھارتی فورسز نے اس عرصے کے دوران 1116مکانات اور عمارات کو نقصان پہنچایا جبکہ 133خواتین کی بے حرمتی کی ۔بی جے پی اورآر ایس ایس کی سرپرستی میں ہندوتوا حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کا ثبوت معروف کشمیری صحافیوں عرفان معراج، آصف سلطان، سجاد گل، اور ماجد حیدری کی گرفتاریاں ہیں۔اس کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکن اورکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCCS)کے سربراہ خرم پرویز بھی بھارت کی تہاڑ جیل میں غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں جس سے خطے میں انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی پر جاری پابندیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ادھر 2019سے اب تک بھارتی ،پیراملٹری فورسزاورپولیس کے 176 اہلکاروں نے خود کشی کی ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے دفعہ370کی منسوخی کے بعدسیاسی مخالفین کو دبانے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرنے کے بی جے پی کے ایجنڈے اور خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ مقبوضہ علاقے میں سیاسی کارکنوں اورصحافیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ انہوں نے میڈیا کے بین الاقوامی اداروں پر زوردیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مداخلت کرکے آزادی صحافت کی حمایت کریں۔