کراچی(نمائندہ خصوصی) کراچی انتظامیہ گرانفروشوں پر جرمانے عائد کرنے کے بجائے جیل بھیجے اور دوکانیں سیل کی جائیں۔ جرمانے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم سے سرکار کا خزانہ تو بھر سکتا ہے مگر مہنگی اشیاء خریدنے والے صارفین کا ازالہ ناممکن ہے۔ یہ بات کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کیپ کے دفتر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ پورے شہر کراچی میں پھل فروش، سبزی فروش، پرچون فروش، گوشت فروش اور مرغی فروش میں سے ایک بھی سرکاری نرخوں پر صارفین کو اشیاء فروخت نہیں کررہے نہ ہی شہر کراچی کی کسی بھی دوکان اور ٹھیلے پر سرکاری نرخ نامہ آویزاں نظر آتا ہے جبکہ اطلاع کے مطابق سرکاری نرخ لسٹ کو دوروپے کے بجائے15سے20روپے میں جبراً فروخت کیا جاتا ہے۔سرکاری لسٹ فروخت کرنے والی مافیا روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے دوکانداروں اور ٹھیلے والوں سے وصول کر رہا ہے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ البتہ دودھ سرکاری ریٹ 200روپے فی کل پر فروخت ہورہا ہے۔ مگر ڈائریکٹر جنرل سندھ فوڈ اتھارٹی کے مطابق دوکانوں پر بکنے والے دودھ میں پانی کی آمیزش ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے صارف کو دودھ 400روپے فی کلو میسر آرہا ہے۔ کیونکہ آدھا دودھ اور آدھاپانی صارف کو مل رہا ہے۔ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ گرانفروشوں نے اپنی الگ سلطنت بنائی ہوئی ہے۔ وہ اپنی مقرر کردہ قیمت پر اشیاء فروخت کرر ہے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں گرانفروش صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف صارف کو مہنگی اشیاء فروخت کی جارہی ہیں۔ ناپ تول میں بھی ڈنڈی ماری جارہی ہے جبکہ اشیاء میں ملاوٹ کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ کوکب اقبال نے حکومت سے سوال کیا کہ کب تک صارفین مہنگی اشیاء خریدتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر کراچی کو چاہیے کہ اب تک جرمانے کی مد میں وصول کی جانے ولای رقم سے کراچی کی ہر مارکیٹ میں صارف شکایتی مراکز کا قیام عمل میں لائیں تاکہ مارکیٹ میں موجود صارف فوری طورپر مہنگی اشیاء فروخت کرنے والوں کی شکایت درج کراسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہر بازار میں شکایتی مراکز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ان مراکز میں متعلقہ ڈپٹی کمشنر کا عملہ صبح سے شام تک موجودرہے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ وہ شکایتی مراکز کے قیام کے سلسلے میں گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کو خط لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری نرخ پر اشیاء فروخت کرنے والے منافع خور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انکو قانون کے مطابق جیل بھیج دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری نرخ نامہ میں عمل درآمد جب ہی ممکن ہے جب صارفین کی دادرسی موقع پر ہوسکے۔ کمشنر کراچی کی ٹیم دورہ کرکے نکل جاتی ہے اس سے صارفین کو مستقل فائدہ نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں مہنگی اشیاء فروخت اور ملاوٹ کرنے والے تاجر کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انکا مذہب اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ اگر وہ بحیثیت مسلمان تاجر اشیاء فروخت کریں تو کم از کم جائز منافع لے سکتے ہیں۔ یا پھر رضاکارانہ طورپر اپنی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردیں۔ مگر پورے کراچی میں ایک بھی ایسا تاجر نظر سے نہیں گذرا جو اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے سکے۔ کوکب اقبال نے مزید کہا کہ یہ ہی نہیں لوگوں کو اشیاء خوردونوش مہنگی مل رہی ہیں۔ بلکہ کپڑے جوتے اوردیگر اشیاء سمیت جان بچانے والی دواؤں کی قیمت میں من مانہ اضافہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے صارف کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ فوری طورپر صارفین کو ریلیف دینے کے اقدامات کرے۔