کراچی (بیورو رپورٹ) صوبائی وزیر برائے محکمہ آبپاشی جام خان شورو نے آج سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس دن بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا اس دن اپوزیشن نے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جو کہ قابل افسوس رویہ اور قابل مذمت عمل تھا اورحزب اختلاف والےلیڈر آف دی ہاؤس کی تقریر سنے بغیر سب کچھ کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ وہ صوبےکی 1713 ارب روپے کی بجٹ پر بات کرتے اورکرنٹ روینیو اخراجات تقریباً 12 سو ارب روپے ہیں اسے کس طرح کم کیا جائے اس پر بات یا اپنی رائے دیتے۔ جام خان شورو کا کہنا تھا کہ تنقید ضرور ہونے چاہیے اس سے ہم اسیمبلی کے اجلاس کے دوران بہت ساری چیزیں سیکھتے ہیں لیکن حزب اختلاف کی جانب سے این آئی سی وی ڈی، ایس آئی یوٹی اور گمس، انڈس ہسپتال اور پی پی ایچ آئی جیسے صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو دی جانے والی گرانٹس پر تنقید کی گئی۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے برسوں بعد مجھے لگا کہ اچھی تقریر کی ہے لیکن انکی تقریر کا آغازبجٹ کو لالی پاپ اور واعدوں پر مبنی قرار دیا گیا جب یہاں جھوٹے واعدوں اور لالی پاپ دینے کی بات کریں گے تو ملک میں ایک شخص اور اسکی پی ٹی آئی کی حکومت سرفہرست نظر آئی گی۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیا یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ کراچی کو 11 سو ارب دیں گے
سمندر سے تیل نکالنے کا لالی پاپ دیا ہے اور کیا آپ نے کراچی کیلئےفلائی اوورز اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی بات نہیں کی تھی۔ مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ساڑھے تین برسوں میں عوام کو سوائے لالی پاپ اورجھوٹے واعدوں کے کچھہ نہیں دیا۔ جام خان شورو نے کہا کہ کسی ممبر صوبائی اسمبلی نے کہا کہ احساس پروگرام کوسٹینفورڈ یونیورسٹی نے سراہا ہے لیکن یہ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام ہے جسکو آپ سے پہلی عالمی سطح پر سراہا گیا تھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اس پروگرام کا نام بدلنےکی کوشش کی لیکن لوگ بلکل قبول نہیں کریں گے۔ مزید کہنا تھا کہ ایک خاتون ممبر نے کہا سندھ کے عوام وڈیروں کے غلام ہیں، سندھ کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور 1938 میں قائد اعظم محمد علی جناح کو سندھ کے لوگ لیکر آئے اور سب سے پہلے علحدہ ملک کی قرارداد پیش کی گئی جس پروہ صوبائی وزیر تعلیم سردار شاھ سے گذارش کریں گے کہ وہ اسے ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بنائے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ گزشتہ حکومت نےملک کو 43 ہزار ارب سے زائد کے قرضے تک پہنچا دیا ہے اور ماضی میں سندھ طاس معاہدے کے تحت صوبہ سندھ کے تین دریائوں کو دشمن ملک کو بیچ دیا گیا جبکہ 1960 میں دو ڈیموں کی تعمیر کیلئے بلین ڈالرز کا قرضہ لیا گیا اور آج تک ہم اس قرضے میں ڈوبے ہوئے ہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ 1991 کے معاہدے پر سندھ کے لوگوں کو شدید اعتراض تھا اوراس پر ارسا ایکٹ بنایا گیا۔ارسا کا کام صرف آبی معاہدے پر عملدرآمد کرنا تھا۔ صوبائی وزیرجام خان شورو نے کہا کہ 2013 میں ایک آمر کی جانب سے تھری ٹیئر فارمولا دیا گیا جس پر پیپلز پارٹی نے شدید احتجاج کیا اورسندھ کے ساتھ پانی معاملے پر زیادتی کی گئی جو آج تک وہ زیادتی جاری ہے جبکہ سندھ اسمبلی نے تھل اور جلالپور کینالوں کیخلاف قرارداد پاس کروائی تھی ۔ پانی کی صورتحال پر کہا کہ کینجھر جھیل ڈیڈ لیول کےقریب پہنچ گئی ہےاوراس وقت کوٹری بیراج پرصرف پینے کا پانی میسر ہے۔ صوبہ سندھ نےاپنےمعدود بجٹ سے 2300 کلومیٹر کی لائینیں دی ہیں اور18 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیدرآباد شہر میں پانی کےفلٹر پلانٹ کے منصوبے کو 30 ایم جی ڈی سے بڑھا کر60 ایم جی ڈی تک توسیع دی گئی ہے اور لطیف آباد میں پہلا فلٹر پلانٹ سندھ حکومت لگارہی ہے جبکہ حیدر آباد میں داخل ہونے والے روڈ سندھ حکومت نے بنائے ہیں،