غزہ (نیوز ڈیسک )رمضان المبارک کے دوران فلسطینیوں کے القدس شریف میں داخلے کو محدود کرنے کے اقدامات کی وزیراعظم نیتھں یاہو نے منظوری دیدی۔انتہا پسند وزیر اندرونی سلامتی المعروف پولیس منسٹر، اتامر بن گوئر کا خیال ہے کہ قبلہ اول کے تصور نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے عرب شہریوں میں مسجد اقصیٰ سے جذباتی وابستگی پیدا کردی یے۔ ‘قبلہ اول’ کی زیارت کیلئے رمضان اور دوسرے اسلامی تہواروں پر مسجد اقصیٰ میں غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور نمازیوں کی صفیں مسجد کے دالان یعنی سارے القدس شریف (Temple Mount)تک آجاتی ہیں۔ اس دوران مسجد میں جذباتی خطاب اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے نعروں سے نمازی ذہنی طور پر مشتعل رہتے ہیں۔بن گوئر کا خیال یے کہ مسجد میں داخلہ محدود کردینے سے جذباتیت میں کمی ہوگی۔ ایک خطاب میں انھوں نے کہا ٓتھا کہ 7 اکتوبر کو حملے کو ‘طوفان الاقصیٰ’ پکارنے کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کار فرما تھی کہ ‘قبلہ اول’ کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات بر انگیختہ کئے جائیں۔ وزیرموصوٖف چاہتے ہیں کہ معراج النبی (ص) کے حوالے سے القدس شریف کی تاریخی حیثیت تو بر قرار رہے لیکن قبلہ اول کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔اسی لئے وہ مسجد اقصیٰ میں داخلہ محدود کرنا چایتے ہیں۔منصوبے کے تحت پہلی تراویح سے اتنے ہی لوگوں کو کمپاونڈ میں آنے کی اجازت دی جائیگی جتنے مسجد اقصیٰ کے اندرسماسکیں۔ دالان میں صٖفیں بنانے کی ممانعت ہوگی۔ القدس شریف کے مختلف دروازوں خاص طور سے بابِ دمشق پر سحر و اٖفطار کیئے اشیائے خوردونوش کے جو اسٹال لگائے جاتے ہیں ان پر بھی پابندی کی تجویز ہے۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی، شاباک (Shin Bet) نے بن گوئر کی اس تجویز کو داخلی سلامتی کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں فلسطین حد درجہ حساس ہیں اور پابندیوں سے غربِ اردن کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے عرب شہریوں میں بھی اشتعال پھیلے گا لیکن پولیس منسٹر نے شاباک کی سفارش مسترد کردی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نے بھی جناب گوئر کی تجویز کو منظور کرلیاہے