جب میں تاج محل ہوٹل کے سامنے شاہراہ فیصل پر آیا اور بمشکل آدھ فرلانگ چلا ہونگا کہ ہوا کے شدید دبائو سے فیصلہ کا پورا برنچ کلپ سے نکل کر سڑک پر گرا اور فیصلہ کے کاغذ ہوامیں اڑ کرادھر ادھربکھرگئے،اس سڑک پر ایک تو گاڑیاں بمپر تو بمپر چلتی ہیں پھر ٹریفک تیز بھی ہوتاہے اتنے تیز ٹریفک میں گھس کر بیسیوں بکھرے کاغذ چننا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا مگر میری خوش قسمتی تھی کہ 1999 میں جناح اسپتال کو جانے کا اوور ہیڈ برج نہ بناتھا یہاں سگنل ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ منٹ مل گئے اب صرف صدرسے آنے والی اکادکا گاڑیاں تھیں خطرہ تو پھر بھی تھا مگر میرے میہرباں کے مذاق میں کہے وہ الفاظ میرے ذہن میں گونج رہے تھے "تم پھانسی چڑھوگے یامیں” تو میں سڑک پر پاگل کتے کی طرح ہوامیں اڑتے فیصلہ کے اوراق پکڑنے کوکبھی ادھر بھاگ رہاتھا کبھی ادھر سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اور سواریاں مجھے برا بھلا بھی کہ رہے تھے اورکچھ تو لعنتیں بھی دکھارہے تھے مگر مجھے اس وقت کچھ نہیں سوجھ رہاتھا خدا کاشکر ہے کہ سارے اوراق بھی جمع ہوگئے اور میں بھی محفوظ رہا اور پھر وہ فیصلہ سینہ سے چمٹائے دفتر پہنچا تو شاہ جی بے چینی سے رپورٹنگ روم میں ٹہل رہے تھے وہ میراقصہ سن کر بہت محظوظ ہوے، خبریں ملک کاوہ واحد اخبار تھا جسنے دوسرے روز ہی فیصلہ کا ایک حصہ شائع کیا اور پھر کئ روز تک قسط وار فیصلہ چھپتارہا، ٹھیک ڈیڑھ سال بعد مجھے لاہور ہیڈ آفس سے 3 صفحات کا نوٹس ملا جس کی زباں بھی "لاہوری تھی” جبکہ مینے چیف رپورٹر کی حیثیت سے تعیناتی کے پہلے روز ہی ضیاء شاہد مرحوم سے درخواست کی تھی کہ لاہور اور کراچی کی صحافت کامعیار،اصول،ضابطے اور انداز تکلم بلکل مختلف ہے یہاں لاہوری انداز نہ اپنایاجائے مگر مالک تو مالک ہی ہوتا ہے، مینے استعفی دیدیا اور رپورٹرزکی صبح 10 بجے کی میٹنگ میں استعفی کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا شاہ جی میٹنگ میں نہ تھے وہ یہ سن کر آئے تو خود بخود بھیڑ چھٹ گئی تخلیہ ہوتے ہی شاہ جی نے اداس لہجہ میں مجھے استعفی واپس لینے کو کہا اور یہ بھی کہ میں چیف ایڈیٹر سے بات کرکے نوٹس واپس کروادیتا ہوں میرے سوال پر بولے بلاشبہ اگر یہ نوٹس مجھے ملا ہوتا تو گھر سے ہی استعفی بھجوادیتا دفتر سے سب کو خداحافط کہ کر رخصت ہونے لگا تو جن چند چہروں پر حقیقی اداسی دیکھی ان میں شاہ جی نمایاں تھے میں ان کا ماتحت تھا پھر بھی وہ بہت سے رپورٹرز کے ساتھ مجھے گیٹ تک چھورنے آئے اس کے بعد خال خال ہی ملاقات رہی آخری ملاقات ان کی وفات سے 2 ماہ پہلے ہوئی تھی وہ سول اسپتال کے گندے سے بیڈ پر بے سدھ پڑے تھے بہت نحیف ہوچکے تھے بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ گال پچک کر داڑھوں سے جالگے تھے آنکھوں کے گرد حلقے پڑچکے تھے شیو بڑھی ہوئی تھی غربت میں بھی نفاست کا شہزادہ بے ترتیب بالوں کے ساتھ نیم خوابیدہ دھنسی ہوئی نظروں سے مجھے پہچاننے کی کوشش کرہاتھا مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی کراچی کے سرکاری اسپتال "موت گھر” مشہور ہیں جانوروں سے بدتر یہاں مریضوں سے سلوک ہوتاہےاور شاہ جی کے بچے مجبور انہیں طبیعت زیادہ بگڑنے پربار بار لے آتے تھے،نجی اسپتالوں کے اخراجات ان کے بس کی بات نہ تھی ان کے تیماردار بیٹے نے بتایا کہ 4 ماہ سے ادارہ ایکسپریس نے ان کی تنخواہ بند کردی ہے اور ان کا بینک اکائونٹ بھی بلاک کروادیاہے جس کے بعد گھریلو حالات زیادہ ہی خراب ہوگئے ہیں اب ان کے پاس ڈاکٹرزکی جانب سے لکھی دوائیاں خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھےاور اکثر کچھ جونیر ڈاکٹرز آپس میں چندہ کرکے انہیں ضروری دوائیاں فراہم کرتے ان کے ایک بھانجے نے بتایاکہ لیاری کے بہت سے لوگ عرب ریاستوں میں اچھے عہدوں پر ہیں وہ شاہ جی کے پرستار بھی تھے انہوں نے خاصی مدد کی مگر اس میں سے ایک دھیلہ بھی شاہ جی یا ان کے بچوں تک نہ پہنچ سکا اس نے بڑے دکھ سے کہا اپنوں نے بھی کچھ کمی نہ کی ان کے بیٹے نے یہ بتاکر مجھ پر بجلیاں گرادیں کہ ان کے ایک جوان بھائی سید بابرشاہ کا 2 ماہ قبل انتقال ہوگیا تھا جس کا صدمہ شاہ جی کو مزید لے بیٹھا اور وہ پہاڑوں جیسا حوصلہ مند بیٹے کا صدمہ نہ سہ سکا جبکہ ایک اور بیٹے سید تیمور شاہ پر گینگ وار بابا لاڈلہ گروپ کے جرائم پیشہ کے اغوا اور تشدد سے اس کی ذہنی حالت نارمل نہیں رہی تھی اور یہ سب ان کے اپنوں نے کیاتھا اور اب وہ بچہ خاندان پر بوجھ بن کر رہ گیاہے شاہ جی کو اس وحشیانہ طرز عمل کے بعد لیاری کو خیرباد کہ کر شیرشاہ کو مسکن بنانا پڑا اور آخری ایام تک وہ وہیں رہے اور رہی سہی کسر ادارہ ایکسپریس کے تنخواہ بند کرنے نے پوری کردی اور یوں شاہ جی زندگی سے مایوس ہوگئے مینے اپنے خذبات کو کنٹرول کرتے ہوے زبردستی کی سانسیں لیتے شاہ جی کاحوصلہ بڑھانے کو کہا گورنر کامران ٹیسوری نے مجھ سے وعدہ کیاہے کہ شہر کے سینیر صحافیوں کے ساتھ ایک دن گورنر ہائوس میں رکھیں گے تو آپ کو بھی لے کر جائوں گا سارا دن کھانا پینا سب گورنرکی طرف سے ہوگا اور شام کو محفل غزل ہوگی انہوں نے نقاہت سے ہاتھ اٹھایا اور ہمیشہ کی طرح انکار کردیا، آج بڑی شدت سے وہ لمحات مجھے یاد آرہے ہیں ی، خبریں میں ایک روز ہمیں اکھٹے تنخواہ ملی تو شاہ جی کو صدر میں اصرار کرکے ہانگ کانگ ریسٹورنٹ جو اب متروک ہوچکا میں چائنیز کھانا کھلایا اور گھنٹوں باتیں کرتےرہے تو اس روز شاہ جی خلاف توقع اپنے خاندانی مسائل پر بول اٹھے شاید دل پر بوجھ زیادہ ہی بڑھ گیاہوگا ورنہ وہ کبھی گھریلو مسائل پر بات نہ کرتے تھے اس روز پہلی مرتبہ پتہ چلاکہ ان کے 6 بیٹے اور ایک بیٹی ہیں سوائے ایک بیٹے اور بیٹی کے کوئی تعلیم حاصل نہ کرسکا وہ اس روز بڑے دکھی تھے بولے ایک بار نواب اکبر بگٹی کاانٹرویو کرتے ہوے بگٹی صاحب نے پاکستان کے متعلق کوئی غلط جملہ بول دیا جو مجھ سے برداشت نہ ہوا مینے انہیں سخت الفاظ میں ٹوکا تو ان کے گارڈز نے مجھ پر گنیں تان لیں مینے بگٹی صاحب کو مخاطب کرکے کہاکہ اگر آپ بلوچ ہیں تو میں بلوچ ہونے کے ساتھ سید زادہ بھی ہوں اور بلوچی کی پہلی خاتون شاعرہ دشتیاری بی بی کا بیٹا ہوں یہ سن کر اکبربگٹی کو دھچکا لگا اور انہوں نے اپنے گارڈز کو ہتھیار نیچے کرنے کا اشارہ کیا جبکہ کراچی کے اکثرصحافی نادر شاہ جی کی اس بے باکی کے بھی گواہ ہیں الطاف حسین مقبولیت کے عروج پر پریس کانفرنس کے نام پر رپورٹرز کو صبح 10 بجے بلاتے اور رات 10 بجے پریس کانفرنس کرتے ایک روز 6 گھنٹے بٹھانے کے بعد وہ جونہی مائک پر آئے تو اپنے مخصوص انداز میں اے پی ایم ایس او کے کارکنوں کومخاطب کرکے بڑے عامیانہ انداز میں بولے ان صحافیوں کی اوقات دیکھی تم نے یہ وہی ہیں جو ہمارے پریس ریلیز ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتے تھے شاہ جی الطاف کے اس توہین آمیز جملوں پر بھڑک اٹھے اور کھڑے ہوکر بولے، الطاف صاحب ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے یہاں آتے ہیں اگر آپ اس کاغلط مطلب لے رہے ہیں یا دوسروں کو دے رہے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے(یہ وہ دن تھے جب الطاف کے خلاف بولنے والا زندہ نائین زیرو سے نہ نکل پاتا تھا) ان کے ان سخت الفاظ پر سناٹا چھاگیا بعد ازاں الطاف حسین کو معذرت کرناپڑی یہ بھی حقیقت ہے کہ ذالفقار علی بھٹو ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری انہیں ذاتی طور پر جانتے اور قدرداں تھے ان کی طرف سے کئی بار کی پیشکش کے باوجود خوددار شاہ جی اپنے کسی بچے کو نوکری تک نہ دلواسکے سب آج بھی بے روزگار ہیں ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کا بھی وہ خود کو ذمہ دار سمجھ تے تھے اس روز پہلی بار ان کی زباں سے یہ درد ناک انکشاف سنا کہ بیٹی سمیت وہ کسی بچے کی شادی بھی نہ کرواسکے ان کے مالی حالات کبھی قابل رشک نہ رہے حالاں کہ وہ شیرازایران کے متمول ہاشمی خاندان سے تھے جنہوں نے ہجرت کرکے کراچی کے مختلف علاقوں کو اپنا مسکن بنایا ان کے نانا کا شہر کے سب سے بڑے قبرستان میوہ شاہ میں مزار بھی ہے شاہ جی مجاور بننے کی بجائے ان باتوں کو ببانگ دہل فضولیات کہتے تھے، لیاری میں گزشتہ دہائی میں مختلف شہروں سے جرائم پیشہ لاکر پپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کی سرپرستی میں گینگ وار کے نام پر کراچی میں بدترین خونریزی کروائی گئی اور دعوا کیا گیاکہ ایم کیو ایم الطاف کی دہشت گردی کا جواب دیناہے اس گینگ وارکے تشدد سے شاہ جی کا ایک بیٹا سید تیمور علی شاہ اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھا معاشرہ کے دیئے عموما اور خاص طور پرگھریلو صدمات ہی موت کا اصل سبب بنتے ہیں اور شاہ جی کو بھی ایسے صدمات نے ہی موت کے قریب کردیا، اچھا ہوا شاہ جی آپ نے رخت سفر باندھ لیا اس بے حس معاشرہ میں آپ کے لئے جگہ کہاں تھی ہم بھی رسم دنیا نبھاکر کچھ دن بعد سب بھول جائیں گے مگر آپ کی جیت یہ ہے کہ آپ کابدتریں مخالف بھی یہ نہ کہ سکے گا کہ نادر شاہ عادل نے قلم سے انصاف نہیں کیا، (خداحافظ میرے پیارے شاہ جی)