کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل کمال اور جسٹس عبدالرحمان پر مشتمل ڈبل بینچ نے اسکیم 33 کی مرکزی کوریڈر مین سپرہائی (سیکٹر18-C/19-C)1400 ایکڑ کی جعلسازی کے ذریعے الاٹمنٹ کا ریکارڈ سمیت تمام فریقین کو 26 فروری 2024ء کو طلب کرلیا ہے۔ عدالت میں ڈپٹی کمشنر شرقی کے خط نمبر NO.DC/K/E/Rev.Br/309/2021 بتاریخ 16 فروری2021ء کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے اوراس جعلی الاٹمنٹ، ڈبل الاٹمنٹ منسوخ کرنے کے ساتھ تمام غیر قانونی تعمیرات منہدم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔کیس نمبر 682/2024 میں محمد سیمع نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو،ڈائریکٹر سروے سیٹلمنٹ، سروے سپریٹنڈنٹ کراچی،کمشنر کراچی، ایڈیشنل کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر شرقی، مختیار کار اسکیم 33، ڈائریکٹر جنرل KDA، ڈائریکٹر لینڈ KDA، ڈائریکٹر ایکوزیشنKDA،ڈائریکٹر کمپنی سیل KDA،ڈائریکٹر اسٹنٹ اینڈ انفورسمنٹ، سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ٹاون پلاننگ اور ڈائریکٹر جنرل سدھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فریق بناتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے،کراچی سے اندرون ملک جانے والی مرکزی شاہراہ سپرہائی وے کی قیمتی اراضی دھوکہ، فراڈ،جعلسازی کے ذریعے الا ٹ کا ریکارڈ بنا دیا گیا ہے دنیا بھر کے برخلاف ہماری اہم شاہراہوں کو بدعنوان افسران اور ریونیو کے عملے نے بند نما داغ لگادیا ہے،ایک طرف افغان بستی، کچی آبادی اور دوسری جانب اسکیم 33کی 1400 ایکٹر اراضی سیکٹر 18-C اور 19-C کی پہلی لائن کمرشل پلازہ اور دوسری روپر بنگلوز کے لئے مختص اراضی کو جعلی الاٹمنٹ سے غیر قانونی تعمیرات کی بھر مار ہے۔ لینڈ مافیا کی ریونیو افسران کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ریکارڈ آف رائٹس میں بڑے پیمانے پر الاٹ شدہ زمینوں پر قبضہ کے خلاف موجودہ سپریم کورٹ جج حسٹس مشیر عالم نے 2005 میں اسکیم کے تمام پلاٹس کا ریکارڈز عدالتی تحویل میں لے لیا تھا۔ ریونیو کے بدعنوان افسران نے گبولوں کے جعلی کلیم پر 38 ریکارڈ کی فائلیں 2008 سے2020 تک تبدیل کرکے اربوں اروپے مالیت کی زمین الاٹ کردی گئی تھی۔ عدالتی حکم پر ڈپٹی کمشنر شرقی محمد علی شاہ نے تحقیقات کرکے اسکیم 33 گلزار ہجری مین سپر ہائی وے پرچائنا کٹنگ کی تصدیق ہونے پر اربوں روپے مالیت کی زمینوں کے اندراج ریکارڈ آف رائٹس میں منسوخ کرنے کی سفارش کردی ہے اور پارکس کے پلاٹس پر بلند و بالا عمارت کی تعمیرات گرانے کی ہدایت کی ہے۔ڈپٹی کمشنر شرقی کے حکمنامہ نمبرNO.DC/K/E/Rev.Br/309/2021 بتاریخ 16 فروری 2021 میں کمشنر کراچی کو رپورٹ ارسال کردی گئی تھی جس پر تین سال میں فیصلے نہ کرنے پردرخواست گزار سمیع نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ عدلت میں جمع ہونے والی ریکارڈز کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر اور مختیارکار اسکیم 33 نے اپنی رپورٹ میں ریونیو ڈپارٹمنٹ اور افسران کے سنگین نوعیت کا انکشافات کرتے ہوئے حقائق پیش کیئے ہیں۔ریکارڈ فائلوں میں 2 سے 10 تک کا اندراج جعلی و بوگس ہے جو 18جنوری2011ء منسوخ کیا تھا۔ یہ گبول فیملی کے مجموعی طور پر 145.36 ایکٹر اراضی دیہہ سونگل ٹیپو شامل نہیں تھی اورلاہوتی گبول ولد عبدالرحمان و دیگر شامل تھے۔ 87.17 ایکٹر اراضی،عبدالرحمان، عبدالعزیز، مسمی بختی،مسمات ہجانی،مسمات صوبی اورمسمات روزی ان تمام کی وراث ہیں انہوں نے عیسی گبول مرحوم کی قانونی اراضی غیر قانونی طور پر منتقل کی۔ کوئٹہ کلاتھ کوآپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی کو نواب خان ولد صادق خان دران کو 1970ء میں منتقل کیا تھا۔ زمین کی کل مالیت اربوں روپے تھی۔زمین کی ریکارڈ فائل،فارم سیون عبدالرحمان اور دیگر نے نمبر 2 سے 10 انٹری بتاریخ 18جنوری 2011ء کوکیا تھا جبکہ ڈپٹی کمشنر ملیر نے غیر قانونی منظوری دی تھی۔ 01-2006 سے 02-2020 تک کا اندارج کیا اور سیکٹر 18-C اور 19-C مین سپرہائی وے اسکیم 33 کراچی کی زمین میں ایڈجسمنٹ کی تھی اس کا خط نمبرNo.DC/K/Malir/Rev.Br/797/2013 بتاریخ 8 مارچ 2013ء،اس میں سروے سپریٹنڈنٹ کراچی بھی شامل ہے۔اسکیم 33 کے سیکٹر نمبر3-A کے 224 ایکٹراراضی، سیکٹر 4-Aکے 148ایکٹر اراضی،سیکٹر18-A کے 120 ایکٹر اراضی،18-B کے 23 ایکٹر اراضی اور سیکٹر 54-A کے 27 ایکٹر اراضی الاٹ کیا تھا۔ لینڈ یوٹیلائزیشن ریونیو نے مجموعی طور پر 542 ایکٹر اراضی صرف پانچ روپے پر اسکوئر یارڈ الاٹ کیا تھا جن میں 284 ایکٹر سرکاری اور 261 ایکٹر نجی اداروں کو مختص کی گئی تھی۔عدالت میں درخواست گزار نے گبول خاندان کی جعلی سازی اور فراڈ کا ریکارڈ بھی پیش کیا ہے۔ رپورٹ میں کراچی کی اسکیم 33 کوریڈر مین سپرہائی وے کی الاٹ شدہ تھا جو گبول خاندان کی زمین سے علیحدہ تھا۔کسی مجاز ادارے سے منظوری کے بغیر 2011ء میں ہونے والے تمام ریکارڈ آف رائٹس میں اندراج کو منسوخ،واپس لیا جائے۔گبول خاندان نے اپنی تمام زمین کو جنوری1980ء, فروری 1980ء، اپریل1980ء اورجون1980ء تک فروخت کرچکے تھے اور یہ سب زمینیں جعلی سازی کے ذریعے کی گئی تھیں، جس کو گبول خاندان کا رجسٹر کاغذات کے نمبر 1592صفحہ نمبر11تا14بتاریخ 31 مارچ 1975ء کو فروخت کے بعد ان کا کلیم برقرار نہیں وہ دھوکہ دہی سے سابق زمینوں کے ساتھ کوریڈر کی اہم زمینوں پر قبضہ کرکے فروخت کردیا تھا۔ واضح رہے کہ کراچی کے 1980ء کی دہائی میں بننے والی محل وقوع گلزار ہجری یعنی اسکیم 33 میں ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمینوں پر جتنے قبضے اور جعلسازی یا فراڈ کے واقعات رونما ہوئے اور ریکارڈ پر موجود ہیں وہ کسی اور علاقے میں نہیں ہوئے۔ یہاں اسکیم میں لاٹیڈ زمین پر قبضہ،کچی آبادی، گوٹھ آباد کی درجنوں ناجائز زمین پر قبضہ کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں 2008ء میں جب آئی تو سرکاری زمین کی ماں (بورڈ آف ریونیو) کے راشی اور بدعنوان افسران و اہلکاروں کیلئے اسکیم 33جنت بن گئی اور سرکاری اور نجی اراضی پر سرکاری سرپرستی میں جعلی کاغذات کی آڑ میں قبضہ کرکے ہزاروں شہریوں کو اس کے جائز حق سے محروم کیا گیا جو کرپٹ سابق سندھ حکومت کا شیوہ تھا۔ کراچی کی سطع پر رجسٹرار کوآپریٹو کے اعداد شمار کے مطابق 1380 سوسائٹیز رجسٹرڈ ہیں۔کراچی میں مجموعی طور پر 1100 فعال کوآپریٹو سوسائٹیز موجود ہیں جن میں اسکیم 33 میں 123ہاوسنگ سوسائٹیز موجود ہے، اسکیم 33گلزار ہجری کا منصوبہ 26,026ایکٹر اراضی مین 11,632ایکٹر اراضی ہاوسنگ الاٹ کی گئی تھی۔ 23 کلومیٹر یعنی 9 اسکوئر میٹر پر محیط ہے، اس میں 300 ایکٹر لینڈصنعتی زون کے لئے سائٹ لمیٹڈ کی گئی ہے، 4707 ایکٹر کی اراضی مختص ہے 123 کوآپریٹیو سوسائٹیز کو 1896 ایکٹر اراضی پرائیویٹ کوآپرئیٹز سوسائیٹزکو الاٹ کیا گیا تھااور سرکاری سرپرستی میں 1400 ایکٹر سرکاری اراضی پر قبضہ ہے جن میں کچی آبادی، گوٹھ آباد بن چکا ہے اور 1022 ایکٹر اراضی پی اے ایف عکسری ادارہ نے تجاوزات قائم کر رکھی ہے اس کے علاوہ منصوبے میں 2507 ایکٹر اراضی سڑکوں و فٹ پاتھوں کے لئے مختص کی گئی بورڈ آف ریونیو کے تپہ دار، پٹوری،مختیارکار، اسسٹنٹ کمشنر سمیت ڈپٹی کمشنر تک اسکیم 33 کی زمین پر ہاتھ صاف کیا گیا اور لاکھوں کروڑ روپے ڈکار چکے ہیں اسکیم 33 میں تین لاکھ سے زائد الاٹیز کا مستقبل اچھا نظر نہیں آرہا اور قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے زمینوں کی لوٹ مار میں سرکاری اہلکاروں کے علاوہ سیاسی، مذہبی، سماجی،پولیس، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے علاوہ مختلف لینڈ مافیا کے کارندے جرم میں شریک ہیں۔ قومی احتساب بیورو کراچی نے بھی اسکیم 33 پر قبضہ گروپوں اور غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ یہاں بیتحاشہ بےآیمانی اور بددیانتی ہوئی ہے لیکن اسکیم 33 میں قبضہ مافیا کے خلاف تاحال کارروائی نہ ہوسکی،صرف چند ہاؤسنگ سوسائٹیز کے واجبات دلانے میں اپنا رو ل ادا کیا تھا۔ اسکیم 33 کی سوسائٹیز کے زمین کی الاٹمنٹ، ڈبل الاٹمنٹ، جعلی الاٹمنٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعے زمینوں پر گن پوائنٹ پر قبضہ کی اتنی واردات ریکارڈ پر موجود ہیں جن کی کہیں مثال نہیں ملتی لیکن قابل افسوس بات ہے کہ کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی یا جرم و سزا ہوتی تو اسکیم 33 میں معصوم شہریوں کی جمع پونجی نہ لوٹی جاتی اور نہ انہیں ان کے آثاثوں سے محروم کیا جاتا۔