اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک فوجداری مقدمے کے فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ایک جج کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی دباﺅ ،خوف اور لالچ کے اپنی زمہ داری کواداکرے ، اپنے امور کی انجام دہی اوپن مائنڈ سے کرے ،،ججز کو درست نتیجے پر پہنچنا چاہیے تاکہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو سکے اور انصاف فروغ پاسکے ،ایسا کرنے سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا،بعض اوقات مقدمہ بازی کو طول دینے کیلئے لوگوں پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے بہاولنگر میں ایک فریق کے بھانجے کے اغواءکے کیس کا آٹھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا استغاثہ کا یہ کیس ہے کہ نامزد ملزمان کے گھروں سے تاوان کی رقم برآمد ہوئی ،تاوان کی ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم وقوعے کے دو سال سے زائد عرصے بعد دو ملزمان کے گھر وںسے برآمد ہوئی۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان کی شناخت پریڈ کے عمل ایک ہی چھت تلے مشترکہ طور پر کیا گیا،یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کوئی ملزم جرم کا پیسہ اتنا طویل عرصے تک اپنے پاس چھپا کر رکھے ،برآمد شدہ رقم کے کرنسی نوٹوں پر نشان بھی ثابت نہیں ہوئے ،یہ عام پریکٹس ہے کہ لوگ نقدی رقم اپنے گھروں میں رکھتے ہیں ،ٹرائل کورٹ نے سزائیں جنھیں ہائیکورٹ نے درست کالعدم قرار دیا،ناقص تفتیش کے سبب اصل مقدمات میں ملزمان بھی بری ہوجاتے ہیں ،تفتیش کے دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا،تفتیشی ایجنسیوں کے پاس جدید آلات اور ٹیکنالوجی ہی دستیاب نہیں ،گواہان استغاثہ سے تعاون ہی نہیں کرتے جس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گواہان کو تحفظ ہی حاصل نہیں ہوتا،کچھ مقدمات میں اصل ملزمان اس لیے بری ہوجاتے ہیں کیوں کہ شکایت کنندہ بنیادی حقائق مخفی رکھتا ہے ،ضابطہ فوجداری کے تحت ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس کی زمہ داری ہے کہ وہ چودہ روز میں تفتیشی رپورٹ مکمل کرے ،پولیس تاخیر سے تفتیشی رپورٹ جمع کراتی ہے جس کے مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے،شفاف ٹرائل ،آزادی کی ضمانت کے شفاف ٹرائل کا آئینی حق کو یقینی بنانا ٹرائل کورٹ کی زمہ داری ہے،من گھڑت اور تضحیک آمیز مقدمہ بازی کے سبب زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوتا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں فوجداری نظام انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر ایک بڑا چیلنج ہے،یہ تفتیشی ایجنسیوں اور ملک کے ہر جج کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے ،اس کیس میں فریقین دو ہزار اٹھ میں گرفتار ہوئے جنھیں سن دو ہزار پندرہ میں رہائی ملی ،فریقین کا سات سال تک آزادانہ نقل و حرکت اور آزادی کے حق سے محروم رکھنے کی آئینی خلاف ورزی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ،بغیر معذرت خواہانہ رویہ کے سستا اور بروقت انصاف فراہم کرنا آئینی تقاضا ہے،بلاشبہ تفتیشی ایجنسیاں اور عدالتیں آبادی میں اضافے کے سبب زائد مقدمات کا بوجھ اٹھا رہی ہیں،سستا اور فوری انصاف کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے اس کے لیے پورے ملک میں بغیر تاخیر جوڈیشل آفیسرز کی خالی آسامیاں میرٹ پر پر کی جائیں ،ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ،تفتیشی حکام کو اعلیٰ تربیت فراہم کی جائے ،تفتیش کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا استعمال کیا جائے ،حکومت کو چاہیے وہ جھوٹی اور من گھڑت ایف آئی آرز کے اندراج کے سدباب کیلئے اقدامات اٹھائے تاکہ من گھڑت مقدمہ باز سزا سے نہ بچ سکیں ،اس کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کو قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ملزمان کے گھروں سے برآمد کی گئی ر قم انھیں واپس کی جائے۔جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے تحریرکردہ فیصلے میں مزیدکہاگیاہے کہ جب نظام عدل مقررہ وقت میں انصاف کی فراہمی میں ناکام رہے تو یہ نہ صرف آئینی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے مایوسی بھی جنم لیتی ہے،ایک جج کی ذمہ داری ہے کہ چاہے جیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں وہ شکایت کنندہ اور ملزم سمیت ہر فرد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے، ایک جج کو چاہیے وہ بغیر کسی رغبت اور بدنیتی کے ایمانداری کیساتھ آئین و قانو ن کا اطلاق کرے،ایک جج کا ایسا فیصلہ قبول نہیں کیا جاسکتا جو قانون اور حقائق کے منافی ہو ،تفتیشی حکام کی غفلت کے سبب اصل مجرمان سزا?ں سے بچ جاتے ہیں ،بے گناہ لوگوں کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں بلکہ عدالتوں سے غلط سزائیں بھی ہوتی ہیں تفتیشی افسران کی غلط تفتیش آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔