اسلام آباد(بیورو رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس قائم رہے گی یا نہیں ، فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ،پی ٹی آئی امیدوار سلمان اکرم راجہ کے وکیل نے فارم 33پر پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت لکھنے کی استدعا کردی ،وکیل کے دلائل نے کمیشن ممبران کو لاجواب کردیا ،الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم بھی اپنا موقف واضح طور پر بیان نہ کرسکی۔ جمعہ کے روز الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے پی ٹی آئی امیدوار سلمان اکرم راجہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کمیشن کو بھجوائے جانے والی پٹیشن کی سماعت کی اس موقع پر سلمان اکرم راجہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے کہا کہ کمیشن کے سامنے دو چیزیں ریکارد پر لانا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہ کہ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر آیا ہوں انہوں نے کہا کہ ہم انتحابات میں تاخیر نہیں چاہتے ہیں اور جو پٹیشن فائل کی تھی اسی حوالے سے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ہیں انہوں نے کہاکہ نہ تو ہم انتخابات کا التوا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہم بیلٹ پیپر میں بھی کوئی ترمیم نہیں چاہتے ہیں کمیشن کے ممبر نے کہا کہ معاملہ کمیشن کے پاس بھیجا ہے مگر فارم 33 تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اگر رول 94 ختم ہوجائے تو پھر ہم تبدیلی کرسکتے ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ رولز 94 کمیشن نے نوٹیفای کی ہے اور کمیشن ہی اس کو واپس لے سکتی ہے انہوں نے کہا کہ کہ فارم 33 اس رولز کے تحت نہیں بنایا گیا ہے اس سے ووٹر کی خواہش کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دینا چاہتا ہے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور بطور سیاسی جماعت ختم نہیں ہوئی ہے جس پر ممبر کے پی نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت سیاسی پارٹی کی حیثیت نہیںرکھتی ہے ممبر کمیشن نے کہا کہ کیا کوئی سیاسی جماعت بغیر انتخابی نشان الیکشن لڑ سکتی ہے جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل لڑ سکتی ہے کسی بھی قانون نے پارٹی کو ختم نہیں کیا ہے ممبر کے پی نے کہا کہ آئین کے مطابق کوئی بھی سیاسی پارٹی بناسکتا ہے مگر یہ تب ہی پارٹی ہوگی جب ہم سرٹیفیکیٹ دیدی جس پر وکیل نے کہا کہ کہ سیاسی پارٹی کا حق صرف قانون کے تحت لیا جاسکتا ہے اور یہ ملک کی سلامتی کے خلاف اقدامات پر ہی ہوسکتا ہے انہوں نے کہاکہ فاقی حکومت بھی کسی پارٹی کو ختم کرسکتی ہے تاہم اس کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اس کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ممبر کے پی نے کہا کہ اس پر بحث ہوسکتی ہے ممبر کمیشن نے کہا کہ پارٹی کا کوئی عہدیدار نہیں ہے تو ٹکٹ کیسے ایشو ہوسکتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ کہ جس وقت ٹکٹ دئیے گئے تھے اس وقت پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود تھا اور ان کے تمام احکامات بھی درست تھے انہوں نے کہا کہ 10جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے احکامات دیے تھے اور 12 کو ٹکٹ جاری ہونے اور13 جنوری کو پیش کئے گئے انہوں نے کہا کہ اس دورانیہ میں جو احکامات دیے گئے تھے وہ درست ہیں اور سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں ان احکامات کو ختم نہیں کیا ہے انہوں نے کہا کہ فارم 33 کے کالم 5 میں مجھے آزاد امیدوار رکھا گیا ہے اس میں پی ٹی آئی لکھا جائے انہوں نے کہا کہ کمیشن کے سامنے کوئی دقت نہیں ہے میری استدعا ہے کہ مجھے آزاد کی بجائے مجھے پی ٹی آئی کا امیدوار لکھا جائے کیونکہ مجھے ایک پارٹی نے نامزد کیا ہے اور آرٹیکل 17 کے تحت پارٹی موجود ہے تاہم پارٹی کے پاس صرف نشان نہیںہے انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان کا مقصد ان پڑھ امیدواروں کو شناخت میں مدد دینا ہے اگر ایک سیاسی جماعت انتخابات لڑ رہی ہے تو انتخابی نشان اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ اس کی پہچان ہو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے آرٹیکل 17 واضح ہے ممبر کے پی نے کہا کہ جو لاہور ہاییکورٹ نے بھیجا ہے اس میں کیا ہے انہوں نے کہا کہ کہ سیکشن 68 میں کیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ سیکشن 68 میں لکھا ہے کہ امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان لکھے ہونے چاہیے وکیل نے کہا کہ ہم نے ہایکورٹ سے استدعا کی تھی کہ فارم 33 میں ہمیں پارٹی کا امیدوار لکھا جائے کیونکہ آرٹیکل 17 کے تحت پارٹی قائم ہے صرف ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں ہے انہوں نے کہا کہ کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہوتا تو اس سے پارٹی قائم رہنے کا حق نہیں لیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی صرف انتخابی نشان کا حق لیا ہے پارٹی موجود ہے انہوں نے کہا کہ کہ الیکشن کمیشن نے بھی جرمانہ صرف نشان لینے تک لگایا گیا ہے اور کوئی جرمانہ نہیں لگایا ہے ممبر کے پی نے کہا کہ کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ پی ٹی آی کا وجود ہے جس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن نے خود کہا ہے کہ پارٹی موجود ہے کیا ہم کمیشن پر بھروسہ نہ کریں انہوں نے کہا کہ پارٹی موجود ہے صرف ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں ہے اس موقع پر الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری ظفر اقبال نے کہا کہ امیدواروں کو پارٹی کی جانب سے نامزد نہیں لکھ سکتے ہی کیونکہ کسی کے پاس بھی پارتی ٹکٹ نہیں ہے انہوں نے کہاکہ دو طرح کے امیدوار ہیں ایک آزاد دوسرا پارٹی سے انہوںنے کہا کہ پارٹی کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفکیٹ اور حلف دے گا انہوں نے کہا کہ کہ پارٹی کے نامزد امیدوار کو پارٹی کا نشان دیا جائے گا انہوں نے کہا کہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ انٹراا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں ملا ہے اور اگر ہم ان کی بات تسلیم کرلیں تو ایک ہی پارٹی کے بہت زیادہ دعویدار سامنے آجائیں گے اور ریٹرننگ افسران کیلئے مشکل ہوگا اس موقع پر کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا صرف آردر ختم نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے تمام احکامات بھی ختم کردئیے تھے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی نااہلی پر نہ صرف پارٹی سے ہٹایا تھا بلکہ تمام پارٹی سرٹیفکیٹ بھی ختم کردیئے تھے اور تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت سے سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا تھا انہوں نے کہا کہ انہوں نے پی ٹی آی نظریاتی کا سرٹیفیکیٹ نشان مانگنے کیلئے دیا تھا اس وقت ریٹرننگ آفیسر نے ان کو ڈس کوالیفائی کرنا چاہیے تھا اس کے بعد انہوں نے اپنی مرضی کا ٹکٹ مانگا جس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ ہمارے پاس بھی اختیار ہے کہ ہم ان کو ڈس کوالیفائی کریں جس پر وکیل نے کہا کہ ہم انتخابی نشان نہیں مانگ رہے ہیں ہم صرف پارٹی کے ساتھ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ کہ جو اعتراضات کئے گئے ہیں اس کا جواب موجود ہے انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو ڈس کوالیفائی کیا تھا اور سب اقدامات اپنے آردر میں لکھا گیا تھا جبکہ ہمارے کیس میں صرف انتخابی نشان کو لیا گیا ہے ممبر کے پی نے کہا کہ گوہر علی خان کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی پوچھا تھا وکیل نے کہا کہ کہ سپریم کورٹ نے اس کے اقدامات کو حتم نہیں کئے ہیں اور ریٹرننگ افسران نے پارٹی ٹکٹ بھی مسترد نہیں کئے ہیںچیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جب سب کچھ تیار ہوچکا ہے تو کس طرح کیا جاسکتا ہے انہوںنے کہا کہ کہ پی ٹی آئی نے نظریاتی کے ساتھ اتحاد ظاہر کیوں نہیں کیا ہے جس پر وکیل نے کہاکہ پی ٹی آئی نظریاتی ہمارے پاس ایک دوسرا آپشن تھا تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے ہدایات کے بعد اس پر عمل نہیں کیا گیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہاکہ ہم نے صرف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے احکامات واضح کئے تھے اس موقع پر کمیشن نے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔