اوسلو ( نیٹ نیوز)
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک نائٹ کلب پر فائرنگ کے واقعے کے بعد ایک 42 سالہ شخص کو دہشتگردی اور قتل کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔بی بی سی کے مطابق
پولیس نے اس حملے کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس میں دو افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے ہیں۔ فائرنگ لندن پب کے اندر اور اردگرد کی گئی جو ایل جی بی ٹی کیو پلس (ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر) برادری کا ایک معروف تفریحی مقام ہے۔
ناروے کے وزیر اعظم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ملزم رواں سال مئی میں زیر تفتیش تھا مگر اسے اُس وقت خطرہ نہیں سمجھا گیا تھا
حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ سنیچر کی شب مقامی وقت کے مطابق قریب ایک بج کر 15 منٹ پر شروع ہوئی اور اس میں گرفتار کیا گیا ملزم ناروے کا شہری ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق ملزم نے اپنے بیگ سے بندوق نکالی اور فائرنگ شروع کر دی جس سے ڈر کر بعض لوگ زمین پر لیٹ گئے اور کچھ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
کچھ منٹ بعد پولیس نے جائے وقوعہ پر موجود لوگوں کی مدد سے اسے حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے دو ہتھیار برآمد ہوئے جس میں ایک فُلی آٹومیٹک گن شامل ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ 21 زخمی افراد میں سے 10 کی حالت تشویش ناک ہے۔بی بی سی سی کے مطابق اس واقعے کے بعد ناروے میں دہشتگردی کے الرٹ کو ہائی لیول کر دیا گیا ہے تاہم ملک کی انٹیلیجنس سروس (پی ایس ٹی) کے مطابق ابھی ’ایسی کوئی علامت نہیں‘ کہ مزید حملوں کا امکان ہے۔
اوسلو میں گے پرائیڈ کی تقریب سنیچر کو ہونا تھی تاہم پولیس کی تجویز پر اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود سینکڑوں افراد نے جائے وقوعہ کے قریب مارچ کیا اور نعرے لگائے کہ ’ہم یہاں ہیں، ہم الگ ہیں، ہم جانے والے نہیں!‘
قریب 50 سالہ ایک خاتون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ مارچ ہوا ہے۔ ورنہ وہ جیت جاتا۔‘
اس مقام کو پولیس کی جانب سے سیل کر دیا گیا ہے تاہم یہاں قوس قزح کے رنگ کے پرچم اور پھول رکھے گئے اور مظاہرے کے دوران شرکا نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔
پی ایس ٹی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اداروں کو مسلح شخص کے بارے میں 2015 سے علم تھا، اسے مشتبہ دہشتگرد قرار دیا گیا تھا اور یہ ذہنی مرض میں مبتلا رہ چکا ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ ’اسے نفرت کی بنیاد پر جرم ماننے کی وجہ موجود ہے۔ ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس کا ہدف پرائیڈ (واک) تھا یا اس کی کوئی اور وجوہات تھیں۔‘
ناروے کے بادشاہ ہارالد نے کہا ہے کہ وہ اور ان کا خاندان اس پُرتشدد واقعے سے خوفزدہ ہیں۔ ’ہمیں ایک ساتھ آزادی، تنوع اور ایک دوسرے کے احترام کا دفاع کرنا ہوگا۔‘
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان در لین نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا ہے انھیں معصوم لوگوں پر حملے نے حیران کیا ہے جبکہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کا کہنا ہے کہ ’نفرت کے خلاف متحد ہو کر ہم مضبوط ہوں گے۔‘
امریکہ میں وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بیان دیا کہ ’ہم سب اوسلو میں فائرنگ کے واقعے سے خوفزدہ ہوئے ہیں جس میں ایل جی بی ٹی کیو آئی پلس برادری کو ہدف بنایا گیا۔ ہم متاثرین کے خاندانوں اور ناروے کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔‘
لندن پب میں موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ کس طرح تہہ خانے میں چھپ گئے تھے جہاں 80 سے 100 لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی
بیلی بلم جینسن نے ٹی وی ٹو کو بتایا کہ ’کئی لوگوں نے اپنے پارٹنر اور خاندان والوں کو فون کیا۔ ایسا لگا جیسے وہ آخری الوداع کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ایسے افراد کو حوصلہ دینے کی کوشش کی جو بہت زیادہ ڈرے ہوئے تھے۔‘
ایک شخص نے بتایا کہ کیسے اُڑتے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں سے وہ زخمی ہوئے۔ انھوں نے ناروے کے سرکاری چینل این آر کے کو بتایا کہ ’مجھے احساس ہوا کہ گولی چلائی گئی ہے اور شیشے کے ٹکڑے مجھ سے فوراً ٹکرائے۔ گولیاں چلتی گئیں اور میں بار کے اندر چھپ گیا۔ میں نے کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ کر سکوں۔‘
این آر کے سے منسلک صحافی اولف روینبرگ، جو مقام پر موجود تھے، نے بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیگ لے کر آیا ہے۔ اس نے اپنی بندوق اٹھائی اور فائرنگ شروع کر دی
ایک خاتون نے اخبار وردنس گانگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلح شخص نے بہت دھیان سے اپنے اہداف پر گولیاں چلائیں۔ ’جب مجھے لگا کہ صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو میں نے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ ’میں نے دیکھا کہ خون سے لدا ایک شخص زمین پر لیٹا کوئی حرکت نہیں کر رہا ہے۔‘ایک اور شخص نے اخبار کو بتایا کہ زمین پر موجود بہت سے لوگوں کو سر پر چوٹ آئی تھی