اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پر مشتمل ہے جو سیکریٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جاری کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ دونوں مجرمان نے خودساختہ پریشانیاں بنائیں، ہمدردیاں لینے کے لیے بے یار و مددگار بننے کی کوشش کی، فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں۔ عدالت نے کہا کہ سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا، اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا، سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتا کیا گیا، سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا۔ عدالت نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جلسے میں جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور ملک کا نہ سوچا، 31 مارچ کو بانی پی ٹی آئی نے کہا امریکا نے دھمکی دی اس سے پاک امریکا تعلقات کو نقصان پہنچا، امریکا نے ردعمل میں تین بار کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں، امریکا کے بعد بانی پی ٹی آئی نے جھوٹ بولا کہ سازش کے تحت حکومت ختم کی گئی اور افواج پاکستان کو نشانہ بنایا۔ اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو سمجھایا تھا، اعظم خان نےکہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا بھی بانی پی ٹی آئی کو بتایا تھا، بانی پی ٹی آئی نے اعظم خان کی بات کو سنا ان سنا کردیا اور جلسےاور سوشل میڈیا پر مہم چلائی، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنے عہد کی بھی خلاف ورزی کی، سائفر کے معاملے سے ملک کو عالمی سطح پر شدید نقصان پہنچا جس سے معیشت کمزور ہوگئی، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ گواہان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے جلسوں میں سائفر کے معاملے پر لوگوں کو اکسایا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں ناکام رہے جبکہ پراسیکیوشن نے دونوں کے خلاف سائفرکیس کو ثابت کردیا ہے۔ سیکریٹ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارتِ خارجہ کو واپس نہیں بھیجا، سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا، بطور وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری تھی کہ سائفر واپس لوٹاتے، وزارت خارجہ وزیراعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی، اب تک عمران خان نے سائفر واپس نہیں کیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا، سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے، 25 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے لیکن وکلاءصفائی غیر سنجیدہ دکھائی دیے، 27 جنوری کو وکلاءصفائی غیر حاضر تھے، سرکاری وکیل موجود تھا۔ تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں، وکلاءصفائی عثمان گل، علی بخاری کے پہنچنے پر جرح کی تیاری کے لیے وقت دیا، جب جرح کا کہا تو وکلاءصفائی نے انکار کر دیاجس کے بعد سرکاری وکیل نے جرح کی، پراسیکیوشن نے ناصرف گواہان بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کیے، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہو کہ پراسیکیوشن کے گواہان میں کمی رہ گئی۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے مختلف وکلاءآئے، درخواستیں دےکر تاخیری حربے اپنائے گئے، دونوں کے وکلاءنے قانون کا مذاق بنایا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے 342 کے بیان دیے لیکن دستخط نہ کیے، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھیں، فئیر ٹرائل کیا، مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ کر جرح نہیں کی گئی۔